|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
شاتم رسول کی سزا اور اس کی معافی
نبی کریم کی عظمت وتوقیر مسلمان کےایمان کا بنیادی جزو ہےاور علمائےاسلام دور صحابہ سےلےکر
آج تک ا س بات پر متفق رہےہیں کہ
آپ کی شان اقدس میں گستاخی کرنےوالا
آخرت میں سخت عذاب کا سامنا کرنےکےعلاوہ اس دنیا میں بھی گردن زونی ہی۔ خود نبی رحمت نےاپنےاور اسلام کےبےشمار دشمنوں کو (خصوصاً فتح مکہ کےموقع پر) معاف فرما دینےکےساتھ ساتھ ان چند بدبختوںکےبارےمیں جو نظم ونثر میں
آپ کی ہجو اور گستاخی کیا کرتےتھی، فرمایا تھا کہ اگر وہ کعبہ کےپردوں سےچمٹےہوئےبھی ملیں تو انہیں واصل جہنم کیا جائی، یہ حکم (نعوذ باللہ)
آپ کی ذاتی انتقام پسندی کی وجہ سےنہ تھا کہ
آپ کےبارےمیں تو حضرت عائشہ اور صحابہ کرام کی شہادت موجود ہےکہ
آپ نےکبھی بھی کسی سےذاتی انتقام نہیں لیا، بلکہ اس وجہ سےتھا کہ شاتم رسول دوسروں کےدلوں سےعظمت وتوقیر رسول گھٹانےکی کوشش کرتا اور ان میں کفر ونفاق کےبیج بوتا ہی، اس لیےتوہین رسول کو ”تہذیب وشرافت“ سےبرداشت کر لینا، اپنےایمان سےہاتھ دھونا اور دوسروں کےایمان چھن جانےکا راستہ ہموار کرنےکےمترادف ہی۔ نیز ذات رسالت مآبچونکہ ہر زمانےکےمسلمان معاشرہ کا مرکز ومحور ہےاس لیےجو زبان
آپ پر طعن کیلئےکھلتی ہی، اگر اسےکاٹا نہ جائےاورجو قلم
آپ کی گستاخی کیلئےاٹھتا ہی، اگر اسےتوڑا نہ جائےتو اسلامی معاشرہ فساد بداعتقادی اور بدعملی کا شکار ہو کر رہ جائےگا۔ امام ابن تیمیہ کےالفاظ میں، نبی کریم کو (نعوذباللہ) نازیبا الفاظ کہنےوالا ساری امت کو گالی دینےوالا ہےاور وہ ہمارےایمان کی جڑ کو کاٹنےکی کوشش کرتا ہی۔ نبی کریم نےاپنےلیےنہیں بلکہ مسلمانوں کا ایمان اور غیرت بچانےکیلئےہجو نگاروں کی گستاخیوں کی پاداش میں ان کا قتل روا رکھا۔ ان میں سےایک ملعون کا نام ابن خطل تھا، وہ حضور اکرمکی شان کےخلاف شعر کہتا اور اس کی دو لونڈیاں یہ غلیظ شعر اسےگا گا کر سناتیں۔ فتح مکہ کےدن وہ حرم مکہ میں پناہ گزین تھا۔ ابوبرزہ صحابی نےنبی کریم کےحکم کےمطابق اسےوہیں جہنم رسید کر دیا۔
عام طور پر غزوات اور جنگوں میں
آپ کا حکم ہوتا تھا کہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کیا جائی، لیکن توہین رسالت اسلامی شریعت میں اتنا سنگین جرم ہےکہ اس کی مرتکب عورت بھی قابل معافی نہیں چنانچہ
آپ نےابن خطل کی مذکورہ دو لونڈیوں کےعلاوہ دو اور عورتوں کےبارےمیں بھی جو
آپ کےحق میں بدزبانی کی مرتکب تھیں، قتل کا حکم جاری کیا تھا۔ اس طرح مدینہ میں ایک نابینا صحابہ کی ایک چہیتی اور خدمت گزار لونڈی جس سےان کےبقول ان کےموتیوں جیسےدو بیٹےبھی تھی، رسول اکرم کی شان میں گستاخی اور بدزبانی کا ارتکاب کیا کرتا تھی۔ یہ نابینا صحابی اسےمنع کرتےمگر وہ باز نہ
آتی۔ ایک شب وبدزبانی کر رہی تھی کہ انہوں نےاس کا پیٹ چاک کر دیا جب یہ معاملہ نبی کریم کےسامنےپیش ہوا تو
آپ نےفرمایا لوگو! گواہ رہو اس خون کا کوئی تاوان یا بدلہ نہیں ہی۔ (ابودائود، نسائی)
جب حضرت عمر نےگستاخ رسول کےنابینا قاتل کےبارےمیں پیار سےکہا دیکھو اس نابینا نےکتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہی، تو
آپ نےفرمایا، اےاعمیٰ (نابینا) نہ کہو، بصیروبینا ہو کہ اس کی بصیرت وغیرت ایمانی زندہ وتابندہ ہےاور جب ایک اور گستاخ ملعونہ اسماءبنت مروان کو اس کےایک اپنےرشتہ دار غیرت مند صحابی نےقتل کیاتو
آپ نےفرمایا لوگو! اگر تم کسی ایسےشخص کی زیارت کرنا چاہتےہو جو اللہ اور اس کےرسول کی نصرت وامداد کرنےوالا ہےتو میرےاس جانثار کو دیکھ لو۔ یہ غیرت مند صحابی عمیر بن عدی جب اس ملعونہ کےقتل سےفارغ ہوئےتو ان کےقبیلہ کےبعض سرکردہ افراد نےان سےپوچھا تھاکہ تم نےیہ قتل کیا ہی؟ انہوں نےبلاتامل کہا، ہاں اور اگر تم سب گستاخی کا وہ جرم کرو جو اس نےکیا تھا کہ تم سب کو بھی قتل کر دوں گا۔ (الصارم المسئول لابن تیمیہ)۔
|