|
کالی شلوار
(سعادت حسن منٹو)
دہلی سے آنے سے پہلے وہ انبالہ چھاؤنی میں تھی، جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان
گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی۔ ان کو وہ
عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی لیکن جب وہ یہاں آئی اور اس کا کاروبار نہ چلا
تو ایک روزاس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا ۔ ” دس لیف....ویر بیڈ۔“ یعنی یہ
زندگی بہت بری ہے، جبکہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔
انبالہ چھاؤنی میں اس کا دھندا بہت اچھا چلتا تھا۔ چھاؤنی کے گورے شراب پی کر
اس کے پاس آجاتے تھے اور وہ تین چار گھنٹوں میں ہی آٹھ دس گوروں کو نپٹا کر بیس تیس
روپے پیدا کرتی تھی۔ یہ گورے، اس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں اچھے تھے۔ اس میں کوئی
شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔
مگر ان کی زبان سے یہ لاعلمی اس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ اس سے
کچھ رعایت چاہتے تو وہ کہہ دیا کرتی تھی ”صاحب ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں
آتی۔“ اور اگر وہ اس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتے وہ اپنی زبان میں گالیاں
دینی شروع کردیتی تھی۔ وہ حیرت میں اس کے منہ کی طرف دیکھتے تو وہ کہتی۔ ”صاحب ! تم
ایک دم الو کا پٹھا ہے.... حرامزادہے، سمجھا۔“ یہ کہتے وقت وہ لہجہ میں سختی پیدا
نہ کرتی بلکہ بڑے پیار کے ساتھ ان سے باتیں کرتی۔ گورے ہنس دیتے اورہنستے وقت وہ
سلطان کو بالکل الو کے پٹھے دکھائی دیتے۔
مگر یہاں دہلی میں وہ جب سے آئی تھی ایک بھی گورا اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین
مہینے اس کو ہندوستان کے اس شہر میں رہتے ہو گئے تھے جہاں اس نے یہ سنا تھا کہ بڑے
لاٹ صاحب رہتے ہیں مگر صرف چھ آدمی اس کے پاس آئے تھے۔ صرف چھ، یعنی مہینے میں دو
اور ان چھ گاہگوں سے خدا جھوٹ نہ بلوائے ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کئے تھے۔ تین روپے
سے زیادہ پر کوئی نہ مانتا تھا۔ سلطانہ نے ان میں سے پانچ آدمیوں کو اپنا ریٹ دس
روپے بتلایا تھا مگر تعجب کی بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا ”بھئی ہم تین
روپے سے ایک کوڑی زیادہ نہیں دیں گے۔“ جانے کیا بات تھی کہ ان میں سے ہر ایک نے اسے
تین روپے کے قابل سمجھا۔ چنانچہ جب چھٹا آیا تو اس نے خود اس کہا ۔” دیکھو میں تین
روپے ایک ٹیم کے لوںگی۔ اس سے ایک دھیلا تم کم کہو تو میں نہ لوںگی۔ اب تمہاری مرضی
ہو تو رہو ورنہ جاؤ“۔چٹھے آدمی نے یہ سن کر تکرار نہ کی اور اس کے ہاں ٹھہر گیا۔
جب دوسرے کمرے میں ....دروازہ بند کرکے اپنا کوٹ اتارنے لگا تو سلطانہ نے کہا
”لائیے ایک روپے دودھ کا۔“ اس نے ایک روپیہ تو نہ دیا لیکن نئے بادشاہ کی چمکتی
ہوئی چونی جیب میں سے نکال کر اس کو دے دی اور سلطانہ نے بھی چپکے سے لے لی کہ چلو
جو آیا مال غنیمت ہے۔
ساڑھے اٹھارہ روپے ماہوار تین مہینوں میں....بیس روپے ماہوار تو اس کوٹھے کا کرایہ
تھا جس کو مالک انگریزی زبان میں فلیٹ کہتا تھا۔ اس فلیٹ میں ایسا پاخانہ تھا جس
میں زنجیر کھینچنے سے ساری گندگی پانی کے زور سے ایک دم نل میں غائب ہو جاتی تھی
اور بڑا شور ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس شور نے اسے بہت ڈرایا تھا۔ پہلے دن جب
وہ رفع حاجت کے لئے اس پاخانہ میں گئی تو اس کی کمر میں شدت کا درد ہو رہا تھا فارغ
ہو کر جب اٹھنے لگی تو اس نے لٹکتی ہوئی زنجیر کا سہارا لے لیا۔ اس زنجیر کو دیکھ
کر اس نے یہ خیال کیا چونکہ یہ مکان خاص طور سے ہم لوگوں کی رہائش کے لئے تیار کیے
گئے ہیں۔ یہ زنجیر اس لئے لٹکائی گئی ہے کہ اٹھتے وقت تکلیف نہ ہو اور سہارا مل
جایا کرے۔مگر جونہی زنجیر پکڑ کر اس نے اٹھنا چاہا اوپر کھٹ کھٹ سی ہوئی اور پھر
ایک دم پانی اس شور کے ساتھ باہر نکلا کہ ڈر کے مارے اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔
|