|
حرام جادی
(محمد حسن عسکری)
ان کی ہی وجہ سے
تو اس نے رنگدار ساڑھیاں چھوڑدیں اورسفید پہننے لگی ، مگر پھر بھی نہیں مانتے
........اب اگر آج وہ نیلی ساڑھی پہن کر جائے گی تو نہ معلوم کیا کیا کریں گے
........ توپھر سفید ہی پہن لے ........مگر روزروز سفید اور کیا ، وہ کوئی ان سے
ڈرتی ہے ۔ ہنستے ہیں تو ہنسا کریں ، کوئی اسے کھا تھوڑی لیں گے ، بھلا کیا بگاڑسکتے
ہیں وہ اس کا ؟ ........اب وہ پھررنگدار ساڑھیاں پہنا کرے گی ........دیکھیں وہ اس
کا کیا بناتے ہیں ........ہنسیں گے تو ضرور مگر اس سے ہوتا ہی کیا ہے ........آج
ضرور نیلی ساڑھی پہنے گی !
نیلی ساڑھی پہن کراس نے بال بنانے کے لئے آئینہ سامنے رکھا ۔ کم خوابی سے اس کی
آنکھیں لال اورکچھ سوجی ہوئی سی تھیں ۔ وہ ہاتھ میں آئینہ اٹھا کر غور سے دیکھنے
لگی ........مگر یہ ا س کا رنگ کیوں خراب ہوتا چلا جارہا تھا اورکھال بھی کھروری
ہوچلی تھی ۔ جب وہ لڑکی تھی تو اس کے چہرے پرکتنی چمک تھی ........رنگ سانوالا تھا
تو کیا ، چمکدار تو تھا ........اس کی آنٹی ہمیشہ ماما سے کہا کرتی تھیں ۔
“تمہیںبیٹی اچھی ملی ہے ........مگر اب ........
اس نے آئینہ رکھ دیا اور اپنے جسم کواوپر سے نیچے تک ایسی حسرت سے دیکھنے لگی جیسے
موراپنے پروں کو ........اس کے بازوؤں کا گوشت لٹک آیا ہے اورٹھوڑی بھی موٹی
ہوگئی ہے اور ہاتھ اب کتنے سخت ہیں ۔بال بھی سوکھے ساکھے اور ہلکے رہ گئے ہیں ، اور
تیزی تو اس میں بالکل نہیں رہی ہے ۔ پہلے وہ کتنا کتنا دوڑتی بھاگتی تھی اورپھربھی
نہ تھکتی تھی ۔مگراب تو تھوڑی ہی دیرمیں اس کی کمرٹوٹنے لگتی ہے ۔
اس نے ایک لمبی سی انگڑائی اور پھر ایک گہرا سانس لیا ۔ بے ر ونق چہرے اور پلپلے
بازوؤں نے نیلی ساڑھی کا رنگ اڑا دیا تھا ۔ اس نے بال ایسی بے دلی سے بنائے کہ
بہت سے تو ادھرادھر اڑتے رہ گئے ۔ بال بن چکے تھے مگر وہ برابر آئینے کوتکے جارہی
تھی اوراس کا دماغ سمٹ کر آنکھوں کے پپوٹوں میں آگیا تھا جن میں ایک ہی جگہ ٹھہرے
ٹھہرے مرچیں سی لگنے لگی تھیں ۔
جب اس نے آئینہ رکھا تو اسے میز کے کونے پر دیو ار کے قریب بالیبل رکھی نظر آئی ۔
یہ بچپن میں سالگرہ کے موقع پر اس کے پاپا نے اسے دی تھی ۔ مدتوں میں اس نے اسے
کھولا تک نہ تھا اور وہ گرد سے اٹی پڑی تھی ۔ اس کتاب نے اسے پھر پاپاے کی یاد
دلادی اور وہ اسے اٹھانے پر مجبور ہوگئی پہلے ہی صفحہ پراس کانام لکھا تھا ۔ یہ
دیکھ کر اسے ہنسی آئی کہ وہ اس وقت کیسے ٹیڑھے میڑھے حروفبنایا کرتی تھی ۔ اسے یہ
بھی یاد آیاے کہ اس زمانہ میں اس کے پاس ہرا قلم تھا ۔ اس کا ارادہ ہوا کہ اب کے جب
وہ شہر جائے گی تو ایک ہرا قلم ضرور خریدے گی مگراسے خیال آیا کہ وہ قلم لے کر کرے
گی ہی کیا ۔اب اسے کونسا بڑا لکھنا پڑھنا رہتا ہے ۔
اس کے پاپا اسے بالیبل پڑھنے کی کتنی ہدایت کیا کرتے تھے ۔ اسے اپنی بے پروائی پر
شرم سی محسوس ہوئی اور وہ بالیبل کے ورق الٹنے
لگی........پیدائش........خروج........ورق تیزی سے الٹے جانے لگے ........استثنا
........روت ........یرمیاہ ........حقوق........متی ........لوقا........رسولوں کے
اعمال........کہاں سے پڑھے ........آدم........نوح
........طوفان........ابراہیم........کشتی ........صلیب........مسیح
........یسوراجاآئے ........گرجا کا گھنٹہ ........سب مل کر گرجا جاتے تھے ، ہنستے
مذاق کرتے ........
آخر وہ فیصلہ نہ کرسکی کہ کون سی جگہ سے پڑھے اوراسے جلدی جانا تھا ، اتناوقت بھی
نہیں تھا لیکن اس نے ارادہ کرلیا کہ وہ اب روز صبح کو بالیبل پڑھا کرے گی ورنہ کم
سے کم اتوار کو ضرور ........لیکن دعا تو مانگ ہی لینی چاہیے ........بہت سے بری
بات ہے ماماکبھی بغیر دعا مانگے نہیں سونے دیتی تھیں ........اورپھر اس میں وقت بھی
کچھ نہیں لگتا ،اور لگے بھی تو کیا دنیا کے دھندے تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔
اس نے دماغ کو ساکن بنانا چاہا اور آنکھیں بند کرلیںمگرباوجود اس کے آنکھیں پٹ
پھٹانے سے پہلے تواس کی ماما اس کی آنکھوں میں گھس اور پھر پاپا اوران کے پیچھے
پیچھے گرجا کی سڑک ، گھنٹہ اورسب مل کر گرجا جایا کرتے تھے۔
|