ردیف ’’د‘‘
(۱)داتادے بھنڈاری کا پیٹ پھٹے۔
ہماری تہذیبی معاملات اور معاشرتی رویہ بھی کچھ عجیب وغریب ہیں ۔ اور سماجی نفسیات کے پیچیدہ پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں بھنڈاری اس شخص کو کہتے ہیں جوکسی ذخیرہ کانگہبان ہوتاہے۔ بھنڈاربڑے ذخیرے ہی کوکہتے ہیں دینے والا دیتاہے اورسب کودیتا ہے لیکن جو ذخیرہ کانگہبان ہے وہ اللہ واسطے میں یہ سوچتا ہے کہ کسی کو یوں دیا جارہا ہے کہ بہت سے لوگ دوسروں کا کام بنتے ہوئے دیکھ کر جلتے ہیںاورخواہ مخواہ اختلاف کرتے ہیں اُن کے اپنے پاس سے کچھ نہیں جاتا۔ پھربھی انہیں تکلیف پہنچتی ہے اس سے ہمارے سماج کی اخلاقی گرواٹ کا پتہ چلتا ہے۔
(۲) داددینا،دادکو پہنچنا،دادنہ فریاد۔
’’داد‘‘فارسی لفظ ہے مگرہماری زبان میں داخل ہوگیا ہے اورایک سے زیادہ محاوروں میں یہ موجود ہے شِعر پر جب ہم تحسین وآفریں کہتے ہیں تواُسے داد سے تعبیر کیا جاتاہے کہ اس شعر کی بہت داد ملی۔ داددینا انصاف کرنے کو بھی کہتے ہیں اورانصاف کرنیوالا اکثرداد گرکہلاتاہے ۔ کچہری کو داد گاہ کہا جاتاہے ۔ انصاف پیشگی کو دادِگیری کہہ کریاد کیا جاتاہے۔ جب کسی ظلم وزیادتی کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے تواُسے داد فریاد کہتے ہیں اورجب کوئی کچھ نہیں بولتا اوربڑے سے بڑے ظلم وزیادتی پر لوگ خاموشی اختیار کرتے ہیں تواس کے لئے کہا جاتاہے کہ اُس کی دادنہ فریاد اس طرح یہ محاورے سماج میں حق گذاری اورحق شناسی کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ اور نہ حق باتوں کی طرف جن میں ظلم وزیادتی اورحق تلفی کا رویہ شریک رہتا ہے۔ہمارے محاورات انہی سچائیوں کی پردہ کُشائی کرتے ہیں اب یہ الگ بات ہے کہ ہم اس پر کبھی غورکریں یا نہ کریں۔
(۳)’’داغ دینا، داغ اُٹھانا، داغ بیل ڈالنا،داغ لگانا، یا داغ لگنا۔
داغ ایک طرح کا دھبّہ ہوتاہے جوکسی بھی چیز پر خاص طورسے اچھے کپڑے اور کاغذپر لگ جائے توبہت بُرا لگتا ہے قدیم زمانہ میں جو آدمی کسی کا غلام ہوتا تھا خاص طرح سے نشان سے اُس کو داغا جاتاہے اوروہ داغی غلام کہلاتاتھا۔ یعنی وہ آئندہ منہ دکھلانے کے لائق نہ رہتا تھا۔ اس قابل کردیا جاتا تھا۔ اسی حقیقت کے پیشِ نظر خاندانی عزت کو اگرکوئی بات کوئی کام یا کوئی روش خراب کرتی یا مٹاتی تھی تواُسے بھی کام لگنا یا داغ لگنا کہتے تھے۔ داغ ؔ دہلوی کا شعرہے۔
میں اگرچاہوں توگویا رب ابھی توبہ کرلوں داغ لگ جائے گا لیکن تیری غفاری میں
داغ اٹھانا، صدمہ سے گذرنا ہے۔ داغ دیکھنا اور داغ کھانا بھی اسی معنی میں آتاہے کسی شاعر کا شعر ہے۔
داغ دیکھے ہیں‘ داغ کھائے ہیں دل نے صدمے بہت اُٹھائے ہیں
|