|
حیاتِ ولی
عاشق رسول
حضرت صوفی بندےحسن خان دام برکاتہ
اللہ تعالیٰ اپنےبعض برگزیدہ بندوں کو روحانیت کی دنیا میں وہ اعلیٰ مقام عطا
فرماتا ہےکہ قیامت تک دنیا والےخلق خدا کیلئےان کی روحانی خدمات اور تبلیغ اسلام کی
کاوشوں کو فراموش نہیں کر سکتی۔ بےشک اللہ جسےچاہتا ہےعزت دیتا ہےاور جسےچاہتا ہےاس
کےمقدر میں ذلت اور رسوائی لکھ دیتا ہےاس لئےیہ بجاطور پر کہا جاسکتا ہےکہ اللہ
تعالیٰ کی مرضی و منشا کےبغیر دنیا والےکسی کو عزت و توقیر عطا نہیں کر سکتےپھر
ایسےبرگزیدہ بندےجنہوں نےاپنی زندگیاں صرف اور صرف اپنےخالق اور اس کی مخلوق
کیلئےوقف کر رکھی ہوں۔ تاقیامت لوگوں کےذہنوں سےان کی یاد محو نہیں ہوتی۔ اللہ
تعالیٰ فرماتا ہےکہ اےبندےتو مجھےیاد کر‘ میں تجھےیاد کرتا ہوں۔ اس لئےاگر یہ کہا
جائےتو غلط نہ ہو گا کہ برصغیر پاک ہند سمیت دنیا کےہر گوشےمیں اگر آج مسلمان
دکھائی دیتےہیں تو اس کا سہرا اللہ تعالیٰ کےانہی نیک اور صالح بندوں کےسر ہےجنہوں
نےاللہ تعالیٰ اور اس کےپیارےحبیب ا کا پیغام دنیا کےکونےکونےتک پہنچایا۔
عصر حاضر کےایسےہی بزرگوں اور اللہ تعالیٰ کےصالح بندوں میں عاشق رسول حضرت
صوفی بندےحسن خان دام برکاتہ بھی ایک منفرد اور اعلیٰ مقام رکھتےہیں۔
آپ 1927ءمیں بھارت کےشہر فیض آباد کےنواحی قصبے”پٹھان پروا“ کےایک دینی
گھرانےمیں پیدا ہوئی۔ آپ کےوالد گرامی‘ عبدالغفور خاں یوں تو کوئی روحانی شخصیت نہ
تھےلیکن دین سےوالہانہ لگائو ان کو دیگر افراد سےممتاز کرتا تھا۔ آپ کےدادا کلوٹ
خان اور دیگر آبائو اجداد ہندوستان کی ریاست بلرام پور کےگائوں ”اترولا“ اور
”مہادیوا“ سےنقل مکانی کر کےپٹھان پروا میں آباد ہوئےتھےآپ کےآبائو اجداد سےپہلےیہ
علاقہ غیرآباد تھا۔ پٹھان پروا گائوں او ر گردونواح کی تمام اراضی آپ کےخاندان کی
ہی ملکیت تھی۔
چنانچہ دو بھائیوں کی اولاد ہی ”پٹھان پروا“ میں آباد تھی۔ یہ گائوں چالیس پچاس
گھرانوں پر مشتمل تھا اور بمشکل تین سو افراد یہاں رہائش پذیر تھی۔ اس گائوں میں
ایک چھوٹی سی مسجد ضرور تھی لیکن مقامی لوگوں میں دین کی رغبت نہ ہونےکی بنا پر یہ
مسجد اکثر غیرآباد ہی رہتی۔ آپ کےوالد عبدالغفور خاں نےدو شادیاں کیں پہلی بیوی
کےانتقال کےبعد دوسری شادی کی دوسری اہلیہ کا نام سارہ بیگم تھا جن کےبطن سےتین
بیٹےاور ایک بیٹی پیدا ہوئی نرینہ اولاد میں آپ سب سےچھوٹےتھےجبکہ بہن سب سےچھوٹی
تھی سب سےبڑےبھائی کا نام باب اللہ خاں‘ ان سےچھوٹےبھائی کا نام تقی خان تھا۔ باب
اللہ خاں جنگ عظیم دوم کےدوران ہی شہید ہو گئےجبکہ تقی خان نے1990ءکو لاہور میں
وفات پائی اور گورو مانگٹ روڈ گلبرگ تھرڈ لاہور کےکبوتر پورہ قبرستان میں ایک
روحانی شخصیت حضرت سید اصغر شاہ حمیدی کےپہلو میں دفن ہوئی۔
جب عمر بارہ سال ہوئی تو آپ کو قرآن پاک پڑھانےاور دینی تعلیم دینےکیلئےگھر پر
ہی امام مسجد اور عالم دین حضرت مولانا محمد رضا تشریف لانےلگی۔ دین سےرغبت اور
کلام الٰہی سےوالہانہ لگائو کا عالم یہ تھا کہ آپ نےصرف چھ ماہ میں دو بار قرآن پاک
پڑھ لیا۔گورنمنٹ پرائمری سکول جیوا سےچوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔
|