|
حضرت مولانا جلال الدین رومی
حضرت مولانا جلال الدین رومی 604 ہجری کو بلخ میں پیدا ہوئی۔ ابتدائی تعلیم والد بزرگوار حضرت شیخ بہائوالدین سےحاصل کی جو اپنےوقت کےبڑےعالم اور مشہور بزرگ تھی۔ آپ کا خاندانی نام محمد جلال الدین لقب اور عرفیت مولائےروم تھی۔ آپ کا سلسلہ نسب خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق تک براہِ راست پہنچتا ہی۔ آپ کےدادا حضرت حسین بلخی بہت بڑےصوفی اور کمال بزرگ تھےخوارزم شاہ جیسےباجبروت حکمران نےاپنی بیٹی کی شادی مولانا روم کےدادا سےکر دی۔ علم و فضل کےساتھ اس خاندان کو دنیاوی عزت و توقیر بھی حاصل تھی۔ آپ کےوالد حضرت شیخ بہائوالدین نےمولانا جلال الدین رومی کی تربیت اپنےمرید حضرت سید برہان الدین کےسپرد کر دی۔ مولانا نےظاہری علوم سید برہان الدین سےحاصل کئی۔ انیس سال کی عمر میں آپ اپنےوالد گرامی کےہمراہ قونیہ تشریف لےگئی۔ یہیں پر آپ کو شفقت پدری کی بےوقت جدائی کا صدمہ سہنا پڑا۔ کم عمری میں یہ صدمہ کوئی کم گراں نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نےآپ کو صبر کی دولت اور حوصلےسےنواز ا۔ آپ نےغم کو بھولانےکیلئےخود کتابوں میں گم کر لیا۔ 629 ھجری میں پچیس سال کی عمر میں آپ نےمزید تعلیم کےحصول کیلئےشام کا رخ کیا۔ یہاں آپ سات سال تک مقیم رہی۔ پھر واپس قونیہ آگئی۔ انہی دنوں آپ کےاستاد اور ابتدائی تربیت کرنےوالا سید برہان الدین بھی قونیہ پہنچ گئےانہوں نےمختلف علوم میںآپ کا امتحان لیا۔ جب آپ استاد مکرم کےپیمانہ پر پورےاترےتو ایک دن انہوں نےفرمایا۔
مخدوم زادی! اب وقت آگیا ہےکہ میں تمہارےوالد کی امانت تمہیں لوٹا دوں اس کےبعد آپ نےسید برہان الدین کےہاتھ پر بیعت کی اور 9 سال تک پیرومرشد کےہاں قیام پذیر رہی۔ والد گرامی اور استاد مکرم کی تربیت نےمولانا رومی کو درجہ کمال پر پہنچا دیا۔ اب آپ کا عالم یہ تھا کہ جب کسی علمی تقریب میں تقریر کرنےکھڑےہوجاتےتو لوگ پتھر کی طرح ساکت ہو جاتےاوران پر وجد طاری ہو جاتا۔
مولانا روم ظاہری تعلیم و تربیت کےتمام مراحل طےکر چکےتو آپ کی شہرت اور محبوبیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ حاسدین نےجتنی بھی سازشیں آپ کےخلاف کیں وہ اللہ تعالیٰ کےخاص فضل و کرم سےناکامی سےہمکنار ہوئیں بلکہ دشمن کی سازشوں نےآپ کی عزت و توقیر میں مزید اضافہ کر دیا۔
آپ اکثر و بیشتر تنہائی اور دوستوں کی محفل میں تشنگی کا شدت سےاظہار فرماتےجب دوست اس بارےمیں پوچھتےتو آپ فرماتےکہ مجھےخود بھی علم نہیں کہ یہ پیاس کیسی ہی۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہےکہ میری روح ابھی تشنہ ہی۔ بہت دنوں تک آپ کی یہی کیفیت جاری رہی۔ پھر ایک دن عجیب واقعہ پیش آیا کہ جس نےمولانا روم کی زندگی کو یکسر بدل کےرکھ دیا۔
مولانا کا کتب خانہ نادر و نایاب تصنیفات کا بیش قیمت خزانہ تھا۔ ایک دن مولانا روم اسی کتب خانےمیں شاگردوں کو درس دےرہےتھےاچانک ایک اجنبی شخص اجازت کےبغیر کتب خانےمیں چلا آیا۔ اجنبی نےآتےہی اہل مجلس کو سلام کیا پھر حاضرین کی صفوں سےگزرتا ہوا مولانا روم کےقریب جا بیٹھا۔ مولانا کےشاگردوں کو اجنبی کی یہ بےتکلفانہ اد اسخت ناگوار گزری لیکن استاد کےاحترام میں انہوں نےاجنبی کو کچھ نہ کہا مولانا روم کو اس اجنبی کی یہ حرکت اچھی نہ لگی۔ لیکن انہوں نےبھی خاموشی بہتر سمجھی۔ مولانا روم کا درس جاری تھا لیکن اجنبی کو درس سےکوئی دلچسپی نہ تھی وہ بار بار قیمتی کتابوں کےذخیرےکو دیکھ رہا تھا۔ آخر اس سےضبط نہ ہوا وہ درس کےدوران ہی بول اٹھا۔
مولانا! یہ کیا ہےاجنبی نےکتابوں کی طرف اشارہ کرتےہوئےپوچھا۔
|