|
مجاہد اسلام
حضرت شاہ قبول اولیا
برصغیر ہندو پاکستان بطور خاص اور پورا عالم اسلام بطور عام انہی بزرگان دین و اولیاءکرام کےمبارک قدموں کی برکت سےاللہ تعالیٰ کی بےپناہ نعمتوں سےمالامال ہےاسلام کی دولت سےہمارےسینےجو آج تک سیراب ہیںاس کا سبب بھی یہی اولیاءکرام ہیں اشاعت اسلام کےسلسلےمیں اولیاءکرام نےنہایت اہم کردار ادا کیا ہےہر دور میں انہوں نےمردہ دلوں میں روح پھونکی ہےاور دنیا کےگوشےگوشےمیںاللہ کا دین پہنچایا ہےاللہ تعالیٰ کےانہی مقرب و محبوب بندوں میں مجاہد اسلام اور مبلغ اسلام‘ حضرت سید شاہ قبول اولیائ کاشمار بھی ہوتا ہےحضرت سید شاہ قبول اولیاءکی ولادت باسعادت 1101ھ میں جزیرة العرب یعنی مراکش کےایک ساحلی قصبہ تنیجا میں ہوئی آپ کا شجرہ نسب حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی غوث صمدانی سیدعبدالقادر جیلانی قدس سرہ تک پہنچتا ہےآپ پیران پیر حضرت غوث الاعظم جیلانی کےفرزند چہارم حضرت سید عبدالرزاق کی اولاد میں سےتھےآپ کےوالدماجد کااسم گرامی حضرت سیدعبداللہ تھا حضرت سید شاہ قبول اولیاءابھی زندگی کی چوتھی بہار دیکھ رہےتھےکہ آپ کو تحصیل علم کیلئےمکتب بھجوایا جانےلگا بچپن ہی سےآپ کےدل میں عشق الٰہی کی شمع روشن ہو گئی تھی چنانچہ آپ نےاللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنےاور دین حق کی تبلیغ کرنےکا مصمم ارادہ کر لیا اور اس مقصد کےحصول کیلئےاپنےوالد بزرگوار سےہجرت کرنےکی اجازت طلب کی چونکہ آپ ایک نیک مقصد کیلئےخود کو وقف کر دینا چاہتےتھےاس لئےوالد محترم نےلخت جگر کو الوداع کہتےہوئےدعا فرمائی کہ اےاللہ میں اپنےفرزند کو سنت رسول ا پر عمل کرنےکیلئےتیرےسپرد کرتا ہوں تو اسےاس کےنیک مقاصد و عزائم میں کامیابی عطا فرما۔ اس طرح حضرت سید شاہ قبول اولیاءاپنےوالد اور اپنےوطن کو آخری بار سلام کہہ کر ہندوستان کی طرف روانہ ہوئےاس وقت برصغیر پر ظلمتوں کےبادل چھائےہوئےتھےاور جہالت کا پوری طرح دور دورہ تھا حضرت سید شاہ قبول اولیاءخوفناک اور دشوارگزار بحری و بری سفر طےکرتےہوئی‘ راستےکےمصائب جھیلتےہوئی‘ نوراسلام کی ضیاءپاشیاں پھیلاتےہوئےکراچی تشریف لائےآپ کی آمد سےکراچی کےلوگوں نےایسی سعادت حاصل کی کہ ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہو گیا آپ نےکراچی میں بسنےوالےلوگوں کےدامن میںجواہر پارےبکھیرےتاکہ لوگ تاریک راہوں پر بھٹکنےکی بجائےخدائےبزرگ و برتر کےبتائےہوئےراستوں پر گامزن ہو جائیں۔
1123ھ میں وادی سندھ حضرت سید شاہ عنایت کی نور افشانیوں سےجگمگا رہی تھی حضرت
سید شاہ قبول اولیاءکرام بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور بیعت کا شرف حاصل کیا
یہاں آپ کےسپردلنگرخانےکا اہتمام تھا پھر بھی عشق الٰہی میں کامیابی حاصل
کرنےکیلئےدامن صبر نہ چھوڑا یہاں آپ کو وہ سکون قلب حاصل ہوا جس کی تلاش میں آپ
نےاپنےآبائی ملک سےہجرت فرمائی تھی ایک روز حضرت سید شاہ عنایت نےآپ کو اپنا عصا
مبارک دیتےہوئےفرمایا کہ جہاں پہ عصا ٹھہرےوہیں مستقل سکونت اختیار کر کےتبلیغ دین
کا مقدس فریضہ ادا کرنا آپ مرشد کامل سےاجازت لےکرکچھ عرصہ تبلیغ اسلام کیلئےملتان
تشریف لائےآپ کی صداقت محبت اور خدمت خلق کی وجہ سےآپ کی شہرت جنگل میں آگ کی طرح
سارےعلاقےمیں پھیل گئی سینکڑوں لوگ جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر مذہب
اسلام قبول کرنےلگےکچھ عرصہ ملتان میں قیام کےبعد آپ کشمیر تشریف لےگئےآپ
نےراستےمیں اور کشمیر میں ندول شریف (مظفرآباد) دریائےجہلم کےکنارےپہنچ کر اپنےمقدس
فریضہ کو جاری رکھامصائب جھیلتےرہےاور تبلیغ اسلام میں مصروف رہےکشمیر میں مختصر
عرصہ قیام کےدوران آپ نےیہاں کئی افراد کو مشرف بہ اسلام کیا وہاں سےہوتےہوئےآپ
ہزارہ تشریف لائےاور یہاں بھی سرائےگدائی (نزد ہری پور) کےعقب میں ندی کےکنارےویران
جنگل میں ایک ٹیلہ کو بارگاہِ الٰہی کی یاد میں مصروف رہنےکیلئےمنتخب کیا۔ اسی ٹیلہ
میں واقع ایک غار کوقیام گاہ بنا لیا اور اس میںرہنےلگےیہ غار اب بھی تحصیل ہری پور
ہزارہ میں واقع ہےاور اسےبھور شریف کےمقدس نام سےپکارا جاتا ہی۔ یہاں بھی ہزاروں
عقیدت مند حاضری دےکر فیضیاب ہوتےہیں۔
|