|
سلطان العارفین
حضرت سلطان باہو
گیارہویں صدی ہجری کا زمانہ تھا سلطنت ہندوستان کی مسند پر مغلیہ فرماں روا شاہجہان جلوہ افروز تھا۔ ملتان سلطنت دلی کا ہی ایک حصہ تھا ملتان کےناظم اور مروٹ کےراجہ کےدرمیان بیکانیر کےریگستان کےمسئلےپر اختلافات پیدا ہو گئےاور یہ اختلافات اتنی شدت سےابھر کر سامنےآئےکہ علاقےکی فضا پر جنگ کےبادل منڈلاتےصاف نظر آرہےتھی۔ بظاہر دونوں حکومتوں کےمابین صلح جوئی کیلئےقاصدوں اور ایلچیوں کی آمدورفت جاری تھی مگر وقت کا ہر لمحہ‘ ایک خونریز جنگ کی سمت پیش رفت کر رہا تھا۔
مروٹ کا راجہ درانہ‘ اپنےدربار میں بیٹھا‘ ساتھیوں سےصلاح مشورےمیں مشغول تھا کہ ایک شخص اچانک تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا دربار میں داخل ہوا اور راجہ کی سمت بڑھنےلگا۔ پیشتر اس کےکہ درباری اور خود راجہ‘ نووارد کےعزائم سےباخبر ہوتا۔ اس نےیکایک تلوار بلند کی او دوسرےہی لمحےراجہ کا سر تن سےجدا ہو کر زمین پر آن پڑا تو نوارد شخص نےپھرتی سےایک ہاتھ میں راجہ کا سر تھاما اور دوسرےہاتھ سےتلوار کےجوہر دکھاتا راستےمیں آنےوالی ہر مزاحمتوں کو دور کرتا پُھرتی سےدربار سےباہر نکل آیا جہاں اس کا گھوڑا‘ اپنےسوار کا منتظر تھا۔ اگلےہی لمحےوہ گھوڑےکی پشت پر سوار تھا اور گھوڑا برق رفتاری سےسرپٹ محل کی مخالف سمت دوڑنےلگا۔
ملتان کی فوج جو کہ مر وٹ کی جانب پیش قدمی کر رہی تھی نےجب ایک تیزرفتار گھڑ سوار کو ہاتھ میں انسانی سرتھامےاپنی طرف تیزی سےلےکر آتےہوئے دیکھا تو ٹھٹھک کر رک گئی۔ سوار نےنزدیک پہنچ کر راجہ کا کٹا سر ملتان کےراجہ کےقدموں میں ڈال دیا جو لشکر کےہمراہ ہی موجود تھا راجہ سمیت پورےلشکر پر راجہ کا کٹا سر دیکھ کر حیرت طاری ہو گئی اور وہ انگشت بدنداں ہو کر کبھی راجہ درانہ کا سر دیکھتےاور کبھی اپنےسامنےکھڑےاس نوجوان سوار کو دیکھتی۔ معاً ملتانی لشکر سکتےکی اس عارضی کیفیت سےنکلا اور فتح کےپرزور نعروں سےاپنی مسرت کا اظہار کرنےلگی۔
وہ نوجوان جس نےراجہ دراز کا سر کاٹ کر غیرمعمولی جرا¿ت کی لشکر کیلئےاجنبی نہ تھا وہ ایک کہنہ مشق آزمودہ کار اور جرات مند سردار بازید محمد تھا جو دلی سرکار کی فوج سےمفرور ہو کر روپوش تھا۔ جس نےسلطنت دلی کی منصب داری ٹھکرا کر خدا سےلو لگالی تھی لیکن اپنےاس غیرمعمولی کارنامہ سےایک بار پھر منظرعام پر آگیا تھا۔ شاہی دربار سےجہاں اس کیلئےتحسین و آفرین کا پیغام آیا ہی۔ وہیں اس کیلئےحکم تھا کہ وہ اپنی صلاحیتوں سےشاہی لشکر کو فیض یاب کرےمگر وہ نوجوان بازید محمد عشق حقیقی میں اتنا ڈوب چکا تھا کہ اس نےشاہی دربار میں یہ عریضہ بھیجا کہ” میں نےاپنی آئندہ زندگی صرف اور صرف خدا کی راہ میں وقف کر دی ہی۔ چنانچہ میں اب کسی ذمہ داری اور ہر خدمت کو سرانجام دینےسےقاصر ہوں۔
چاروناچار اس کی یہ درخواست منظور کر لی گئی مگر ہند کےحاکم شاہجہان کےاصرار پر اپنی معاشی کفالت کیلئےاسےشورکٹ کےنزدیک ایک جاگیر قبول کرنا ہی پڑی جو بازید محمد نےوہاں کی ایک خانقاہ اور مدرسےکےاخراجات کیلئےوقف کر دی۔
گھر والوں کو جب بازید کی طویل گمنامی کےبعد اتہ پتہ معلوم ہوا تو وہ اسےواپس لانےکےخواہش مند ہوئےمگر بازید محمدکی زوجہ بی بی راستی جو ایک پرہیزگار اور دنیاوی آلائشوں سےپاک خاتون تھیں۔ ان پر واضح کیا کہ” اب وہ واپس کبھی نہ آئیں گی۔“
ہم خدا کی رضا سےاس فانی دنیا کو ترک کر چکےہیں۔ میرےپاس اللہ کی ایک مقدس امانت پرورش پارہی ہےجو مادرزاد ولی ہو گا اور جس کا ظہور چناب کےعلاقہ میں ہو گا۔ سو تم انہیں واپس لانےکا خیال ترک کر دو بلکہ مجھےبھی ان کےپاس پہنچا دو۔“
|