|
گناہوں پر ندامت
گناہ کا ارتکاب خواہش نفس کےاتباع اور خلاف شرع احکام کی پیروی کےباعث ہوتا ہی۔ گناہوں پر ندامت عبدیت کی علامت ہی۔ خطائ‘ غلطی‘ لغزش و گناہ بشریٰ خاصہ ہی‘ اس لئےانسان سےغلطی اور گناہ سرزد ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہےکہ ہم گناہ کرتےرہتےہیں اور ہمیں اپنےگناہوں پر ندامت بھی نہیں ہوتی اس طرح ہمارےدلوں پر مہر لگ جاتی ہےہم گناہوں کےراستہ میں آگےبڑھتےہی جاتےہیں یوں لمحہ بہ لمحہ رحمت الٰہی سےدور ہو جاتےہیں۔
ہم میں سےبہت سےانسان بلکہ مسلمان اپنی نادانی اور بےبصیرتی کےسبب گناہ اور نیکی کےدرمیان فرق کو نہیں پہچانتی۔ بےپروائی اور بےفکری کےساتھ دنیا کےگناہ آلود دھندوں میں لگےرہتےہیں حتیٰ کہ ان کی نگاہوں میں گناہ‘ گناہ نہیں رہتا اور یہ سب کچھ اس لئےہوتا ہےکہ وہ نیکی و بدی کےخودساختہ پیمانوں اور معیاروں پر اپنےافعال و اعمال کو ناپتےاور جانچتےہیں۔
آنحضرت انےفرمایا‘ الاثم ماحاک فی صدرک ”گناہ وہ ہےجو تمہارےقلب میں کھٹک اور خلش پیدا کری“ لیکن ان لوگوں کےدل احساس گناہ سےخالی اور فکرآخرت سےبےپروا ہو جاتےہیں‘ ندامت کا خیال تک دل میں نہیں آتا بلکہ روز بروز ان کا دامن گناہ سےآلودہ تر ہوتا جاتا ہی۔
غالباً وہ یہ بات بھول چکےہیں کہ موت اور بدلہ کا دن ان کےتعاقب میں ہےاور وہ وقت بھی قریب ہےجب گناہوں پر ندامت کیلئےذرا بھی مہلت نہ ملےگی۔ چنانچہ جب دنیا منہ موڑےگی اور آخرت آشکارہ ہو جائےگی‘ تب وہ حسرت ویاس کےساتھ کف افسوس ملیں گےاور کہیں گےکاش ہمیں ایک بار پھر دنیا میں جانےکا موقع مل جائےتو ہم نیک کام کریں لیکن وہ اس چیز کی آرزو کریں گےجس کا استحقاق انہوں نےپیدا نہیں کیا۔ ایسےلوگوں کےسامنے”آج“ ہوتا ہےوہ ”کل“ سےبےنیاز ہوتےہیں۔
لیکن ہمارےدرمیان ایسےلوگ بھی موجود ہیں جو اللہ سےڈرتےہیں اور گناہ سرزد ہو جانےپراعتراف اور ندامت کےساتھ اللہ کی بارگاہ میں رجوع کر کےاپنی غلطیوں ‘ کوتاہیوں اور گناہوں پر نادم ہو کر توبہ و استغفار کرتےہیں اور آئندہ گناہ نہ کرنےکا عہد کرتےہیں اس عہد کی پابندی کا خیال بھی رکھتےہیں اگر بہ تقاضائےبشریت پھر گناہ سرزد ہو جائےتو پھر نادم ہو کر اللہ کی بارگاہ میں معافی کےخواستگار ہوتےہیں۔ ایسےلوگ بالآخر گناہوں سےنجات اور آخرت کیلئےعمل صالحہ کا ذخیرہ جمع کرنےمیں کامیاب ہو جاتےہیں۔
یہ اللہ کا کس قدر عظیم احسان ہےکہ اس نےہمیں زندگی عطا کی‘ صحت و عافیت بخشی‘
راحت و آسانی عطا کی‘ ارادہ و اختیار کی دولت عطا کی‘ کتاب ہدایت سےنوازا‘ رسول آخر
الزمان اکو بھیجا‘ گناہ سرزد ہو جانےپر توبہ کی تلقین اورمغفرت کا وعدہ فرمایا۔ غرض
دنیا میں زندگی گزارنےعاقبت سنوارنےکےطریقےسکھائےاور مواقع سمجھائےپھر یہ انسان کی
کتنی بڑی بدنصیبی ہےکہ وہ صحت و عافیت اور خوشحالی و فراوانی کےایاّم میں خدا کی ان
نعمتوں کا شکر ادا کرنےکےبجائےگناہوں میں ہی مشغول رہتا ہےاور رات دن خدا کی
نافرمانیوں میں گزارتا ہی۔ حتیٰ کہ اس سےعمل خیر سرزد ہونا بند ہوجاتا ہےاور توبہ و
ندامت کا خیال تک دل میں نہیں آتا۔ قرآن وحدیث کی تنبیہوں کا اس پر کوئی اثر نہیں
ہوتا روزمرہ پیش آنےوالےواقعات سےوہ کوئی عبرت نہیں پکڑتا۔
انسان کی انسانیت کا تقاضہ تو یہ ہےکہ وہ اپنی خطائوں‘ غلطیوں اور گناہوں پر
نادم‘ و شرمندہ ہو اور اللہ تعالیٰ سےمعافی کا خواستگار ہو بلکہ گناہ ظاہر ہونےپر
توبہ میں جلدی کری‘ کیونکہ ڈھیل ڈالنےسےطبیعت میں سستی پیدا ہو جاتی ہےاور گناہ کا
احساس بھی آہستہ آہستہ مٹ جاتا ہی۔
اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ سےبندہ کی توبہ قبول فرما لیتا ہےمگر شرط یہ ہےکہ
توبہ و ندامت کا اظہار دل سےاور آئندہ گناہ نہ کرنےکا پختہ عزم بھی کیا جائےحدیث
مبارکہ میں آیا ہےکہ مومن وہ ہےجو خوف خدا کےسبب مطمئن نہ ہو اور امید ثواب سےمایوس
نہ ہو‘ خوف اس بات کا کہ روز جزاءکےدن اللہ تعالیٰ اس کےساتھ کیا معاملہ فرمائیں
گےاور امید اس بات کی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سےاس کےگناہوں کو معاف کر دیں گی‘ مگر
رحمت کی امید پر گناہ کئےجانا‘ گناہوں پر شرمندہ نہ ہونا‘مومن کی شان کےخلاف ہی۔
احادیث نبوی میں گناہوں پر ندامت اور توبہ و استغفار کی بہت تاکید آئی ہی۔ ایک
حدیث میں ہےکہ جو شخص استغفار کی کثرت رکھتا ہی‘ حق تعالیٰ تنگی میں اس کیلئےراستہ
نکال دیتےہیں اور ہر غم سےچھٹکارا فرما دیتےہیں اسےروزی بہم پہنچاتےہیں کہ اس کو
گمان بھی نہیں ہوتا۔ ایک اور حدیث میں آیا ہےکہ جب آدمی گناہ کرتا ہےتو ایک سیاہ
نقطہ اس کےقلب پر بن جاتا ہی‘ توبہ کرنےسےصاف ہو جاتا ہےاگر توبہ نہ کی جائےتو یہ
نقطےبڑےدھبوں کی صورت اختیار کر جاتےہیں۔
لہٰذا مسلمانوں کو چاہئےکہ وہ اپنےگناہوں پر شرمسارو نادم ہو کر ہمیشہ معافی
کےخواستگار رہیں۔ کثرت کےساتھ اللہ سےتوبہ واستغفار کرتےرہیں‘ اپنےگناہوں پر سچےدل
سےتوبہ کریں اور صرف یہی نہیں‘ بلکہ گناہ نہ کرنےکا پختہ ارادہ اور عزم کریں تا کہ
اللہ کی رحمت کاملہ ان کی طرف متوجہ ہو صغیرہ وکبیرہ ہر طرح کےگناہ معاف ہو جائیں۔
اس کےساتھ ہی حقوق العباد کی بروقت ادائیگی کی کوشش بھی لازم ہےکہ جس جس کا حق مارا
ہےیا جس کسی کو بےجا تکلیف و اذیت پہنچائی ہےیا جس کسی کےساتھ ظلم کیا ہی‘ اس
سےخلوص دل سےمعافی مانگےاور اس کےغصب شدہ حق کو واپس کری۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو
تو پھر ان کےحق میں دعائےمغفرت کرتا رہی۔
ہمیں چاہئےکہ ہماری زندگی کےجو دن باقی رہ گئےہیں ان میں پچھلی کوتاہیوں کو
تلافی کرنےکا پختہ عزم کریں اور اپنےدل کو اس بات پر راضی کر لیں کہ اپنےنفس کو
بےلگام نہ چھوڑیں گی‘ شیطانی احکام پر نہ چلیں گی۔ پچھلےگناہوں پر خدا سےندامت و
توبہ کرتےہوئےآئندہ گناہ نہ کرنےکا عزم کریں ورنہ خدا کےاحکام پر عمل کرنےمیں
کوتاہی اور غفلت ہم پر مزید گناہوں کا بوجھ ڈال دےگی۔
|