|
حضرت حافظ محمد عبدالکریم
حضرت بابا شاہ چراغ کےمزار پر ایک شخص کھانا پکا کر فقراءمیں تقسیم کر رہا تھا کہ ایک مجذوب صوف کا موٹا لباس پہنےآیا اور کھانا تقسیم کرنےوالےشخص کو اپنےپاس بلایا۔ اپنی گدڑی سےروٹی کا ایک ٹکڑا نکال کر اسےدیا کہ کھالو۔ اس شخص نےوہ ٹکڑا لےتو لیا مگر کراہٹ کی وجہ سےنہ کھایا۔ یہ دیکھ کر اس مجذوب نےفرمایا۔
”سخی مرد تو نےمیری عطا کو قبول نہیں کیا۔ اچھا جا اگر تجھےنہیں تو تیری اولاد کو ضرور حصہ ملےگا۔“
یہ سخی مرد حضرت نذر محمد تھی۔ جن کےہاں ایک فرزند 11 اپریل 1847ءکو پیدا ہوا جس کی قسمت میں ولایت کا کثیر حصہ لکھ دیا گیا تھا۔ والد نےبیٹےکا نام ”محمد عبدالکریم“ رکھا۔ بیٹےکی پیدائش پر خوشی کےعالم میں آپ نےحضرت شاہ چراغ کےمزار پر حاضری دی اور خیروبرکت کیلئےدعا مانگی۔ حکمت خداوندی دیکھئےکہ آپ کی عمر ابھی تین ماہ تھی کہ والدہ ماجدہ کا سایہ سر سےاٹھ گیا چنانچہ آپ کی پھوپھی مسماة حیات بی بی نےڈیڑھ سال تک کو آپ اپنا دودھ پلایا۔ دو برس کی عمر میں والد گرامی حضرت نذر محمد کا بھی وصال ہو گیا۔ اس طرح آپ کی پرورش آپ کےچچا میاں پیر بخش نےفرمائی۔ آپ کی پھوپھی زاہدہ اور عابدہ خاتون تھیں۔ نماز تہجد میں آپ کیلئےدعا فرماتیں۔
آپ کی ولادت باسعادت راولپنڈی میں ہوئی اور اسی شہر میں آپ نےاپنی ساری عمر گزاری۔ ابتدائی تعلیم اپنےمحلےکی مسجد کےامام قاضی محمد زماں سےحاصل کی۔ سولہ برس کی عمر میں آپ نےقرآن حکیم حفظ کر لیا۔ تفسیر‘ حدیث‘ فقہ اور دیگر اسلامی کتابیں مثلاً احیاءالعلوم مثنوی شریف اور مکتوبات امام ربانی وغیرہ بھی قاضی صاحب سےپڑھیں۔ فن قرات مولوی محمد حسین مکی سےسیکھا۔ قرات میں آپ کو اتنی مہارت حاصل تھی کہ نماز تراویح میں جب آپ قرآن سناتےتو دور نزدیک سےمسلمان اس مسجد میں تراویح پڑھنےآتےاور غیرمسلم‘ ہندو سکھ عیسائی مسجد سےملحقہ گلی میں کھڑےہو کر آپ کا قرآن سنتےلوگ آپ کی خوش الحانی پر فریفتہ تھی۔
آپ کا ذریعہ معاش رنگ ریزی تھا۔ یہ کام آپ کےچچا کرتےتھی۔ انہوں نےہی آپ کو یہ کام سکھایا اور یہی ذریعہ معاش بنا۔ بیس برس کی عمر میں آپ اکثر فقراءاور صوفیاءکی مجالس میں بیٹھنےلگی۔ آپ کو مزارات کی حاضری کا بہت شوق تھا۔ آپ کو تسکین قلب اور روحانی اصلاح کیلئےکسی مرد حق کی تلاش رہنےلگی۔ ان دنوں ایک شخص مستری علیم اللہ کےہاں آپ کا بہت آنا جانا تھا وہ بہت ہی متقی انسان تھےاور چورہ شریف میں حضرت خواجہ فقیر محمد کےمرید تھی۔ اتفاقاً حضرت خواجہ فقیر محمد صاحب راولپنڈی تشریف لےآئےتو مستری علیم اللہ آپ کو پیرو مرشد کےپاس لےگئی۔ حضرت باباجی کی نگاہ شفقت نےآپ کو چن لیا اور بیعت و انابت سےمشرف فرما کر نسبت خاصہ اور ذکر قلبی سےسرفراز فرمایا۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 25 سال تھی۔
بیعت ہونےکےبعد آپ کےعشق و محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ ہفتہ عشرہ میں ایک دو بار
ضرور چورہ شریف جا کر حضرت خواجہ فقیر محمد کی زیارت کا شرف حاصل کرتی۔ اکثر بہت سی
اشیاءاور ضروریات زندگی کا سامان شیخ و مرشد کی خدمت میں پیش کرتےرہتےغرضیکہ آپ
نےاپنی ہمت اور اخلاص کو عملی طور پر ثابت کر کےدکھایا اورتن من دھن کو شیخ کی
بارگاہ میں پیش کر دیا۔ خدمت اور تواضح سےشیخ کےدل کو خرید لیا اگرچہ عزیز و اقارب
آپ کو روکتےلیکن شیخ کی محبت کا جنون راستےکی ہر رکاوٹ کو دور رکھتا۔ آپ رات دن ذکر
الٰہی میں مستغرق رہنےلگی۔ کاروبار میں بہت کم وقت دیتی۔ اکثر صبح کےوقت او رعصر
کےبعد عشاءتک سرداروں کےباغ میں تشریف لےجاتےاور وہاں تنہا بیٹھ کر ذکر اور مراقبہ
میں مشغول رہتی۔ بعض اوقات پیر ودھائی کےقبرستان میں گوشہ نشینی اختیار کر لیتی۔
لیکن تھوڑےہی عرصےبعد خواجہ فقیر محمد نےآپ کو خلافت و اجازت سےسرفراز فرمایا۔
|