|
حضرت حافظ محمد اسحاق قادری نقشبندی
حافظ اسحاق قادری ملت اسلامیہ کی ایک نادر الوجود شخصیت تھی۔ بزرگ کامل تھی۔ فنافی اللہ‘ باقی اللہ صوفی ‘روحانی کمالات اور علمی تصرفات میں عرفان کی وہ بلندی حاصل کی کہ ایک عالم کو انگشت بدنداں کیا۔ برصغیر کا وہ علاقہ جو آج کل مشرقی اور مغربی پنجاب میں تقسیم ہی۔ آپ کی علمی ضیاءپاشیوں کےطفیل منور ہوا۔ اندھیری رات کےبھٹکےمسافروں نےآپ سےاسلام کی روحانیت کا درس حاصل کیا اور فلاح کی راہ پائی۔ زہدو تقویٰ میں بےمثل تھی۔ انسانی سیرت کی تعمیر میں اپنی علمیت اور تصوف سےایسا بھرپور کام لیا کہ عام و خاص سبھی آپ سےفیض یاب ہوئی۔ آپ کےدور میں ہندوستان‘ افراتفری کی شکار ایسی سرزمین تھی جو ایک عبوری دور سےگزر رہی تھی۔ نفسانفسی کےاس عالم میں آ پ نےملی روایات کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا اور معاشرےمیں پھیلی برائیوں کےخلاف سرگرم عمل ہو گئی۔
حافظ اسحاق قادری شریعت محمدی ا کےاتباع کےشدت سےقائل تھی۔ اطالعت رسول اہی منزل مقصود تھی۔ جانتےتھےکہ شریعت کی راہ سےبھٹکا مسافر گمراہی کی راہ کی تاریکی میں کھو جاتا ہی۔ اسی لئےشریعت پر چلنا ہی نصب العین قرار دےرکھا تھا۔ خدا کی عبادت اور ریاضت میں دن رات گزارا کرتی۔ سخت مجاہدےاور ریاضتوں سےاللہ کےنزدیک ہونےکی جستجو میں لگےرہتی۔
آپ کےآبائواجداد کا اصل وطن تو چوٹا ہلہ (ضلع ساہیوال) تھا لیکن پھر مغلیہ حکمران شاہجہان کےزمانےمیں لاہور کےنزدیک آباد ہوئی۔ چوٹاہلہ سےہجرت کر کےآنےکی متعدد روایات بیان کی جاتی ہیں جن میں سےدو خاصی مشہور اور مستند مانی جاتی ہیں۔ ایک روایت کےمطابق ساہیوال جب قحط کی پلیٹ میں آیا تو سبھی نےیہاں سےنکلنا شروع کیا۔ ایسےمیں آپ کےآبائواجداد نےبھی ساہیوال کو خیرباد کہا جبکہ دوسری روایت کےمطابق ساہیوال میں ان دنوں دو قومیں آباد تھیں وٹو اور چنڈور۔ دونوں ایک دوسرےکی سخت مخالف بلکہ خون کی پیاسی تھیں۔ آئےدن کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ کر ایک دوسرےپر حملہ کرنےمیں پہل کا مظاہرہ کرتیں۔ علاقےبھر کو تصادم کی کیفیت میں ڈال رکھا تھا۔ خون ریزی ایک معمول بن چکا تھا۔ ایسی صورت میں آپ کےآبائواجداد نےفیصلہ کیا کہ یہاں رہنا خطرناک ہی نہیں دانشمندی کےبھی منافی ہو گا۔ چنانچہ آپ نےساہیوال سےہجرت کی اور چلتےچلتےلاہور کےنزدیک ایک جگہ آباد ہوئی۔ یہ جنگل سےگھری ایک جگہ تھی۔ آبادی سےکوسوں دور‘ سرکنڈوں اور جھاڑیوں کی بہتات تھی۔ ان دنوں سوائےچند گوجر آبادی کی جھونپڑیوں کےکچھ بھی نہ تھا۔ گوجر آبادی چند گھرانوں پہ مشتمل ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ آپ کےوالد حضرت محمد قائم نےاس جگہ کو بہت پسند کیا۔ حافظ اسحاق کو بھی عبادت و ریاضت کیلئےیہ جگہ بہترین لگی۔ انہوں نےرفقاءسےصلاح و مشورہ کےبعد اس جگہ کو ”شرق پور“ کا نام دیا اور کچےپکےمکانات بنا کر بارگاہ خداوندی میں شکرانےکےنفل ادا کئی۔
حضرت اسحاق کےماموں حافظ محمد صاحب ایک درویش صفت انسان تھےاور زہد و تقویٰ میں لاثانی متعدد تصانیف کےمصنف تھےجن میں بدرالمسائل‘ مصباح العاشقین نمایاں اہمیت رکھتی ہیں۔ آپ کےماموں کا انتقال ہوا تو مسند خلافت آ پ نےسنبھالی۔ آپ اپنی پرکشش شخصیت اور شریعت کےپابند روز و شب گزارنےوالےعالم کےطور پر علاقےبھر میں عزت و احترام کی نظر سےدیکھےجاتےتھی۔
حافظ اسحاق قادری انتہائی خوش الحان قاری تھی۔ آپ کی تلاوت سننےوالےہوش و حواس
سےبیگانہ ہو کر اس میں ڈوب جاتےاور ان پر رقت طاری ہو جاتی۔ مغلیہ دور کےبہت
سےعہدیدار آپ کی قرا¿ت سننےکیلئےآپ کی خانقاہ آتےاو رآپ کی تلاوت کےسحر میں جکڑ
جاتی۔ ولی دربار کی نظروں میں آپ کی بڑی وقعت و عزت تھی۔ مغلیہ حکمران آپ کی علمی و
دینی خدمات کو بڑی قدر کی نگاہ سےدیکھتےتھی۔
|