|
حضرت سید سلطان احمد سخی سرور
ملتان سےچھیاسٹھ کلومیٹر کےفاصلےپر غازی گھاٹ کا قصبہ ہےجس سےآگےتقریباً بیس بائیس کلومیٹر کےعلاقےمیں دریائےسندھ کی گزرگاہ ہی۔ اس کےدوسرےکنارےپر دراہمہ کا قصبہ ہےجہاں سےبذریعہ ویگن ڈیرہ غازی خان تیس پینتیس منٹوں کی مسافت پر رہ جاتا ہی۔
ڈیرہ غازی خاں کو اگرچہ ڈویژن کا درجہ حاصل ہےلیکن بلحاظ ترقی بےحد پسماندہ ہی۔ قریب شام برلب سڑک قہوہ خانوں اور ریستورانوںکےسامنےجب لوگ بیٹھےچائےپیتےنظر آتےہیں تو قبائلی علاقےکا گمان ہوتا ہی۔ یہاں کی زبان سرائیکی ہےجس میں بےحد مٹھاس اور شیرینی ہی۔ لوگ سادہ‘ ملنسار‘ مودّب اور محبت کرنےوالےہیں۔ شاید یہ نمایاں خصوصیات ان بزرگانِ دین کی تعلیمات کا ثمرہ ہیں۔ جو اس علاقےمیں بطرف جنوب پچاسی میل کےفاصلےپر کوٹ مٹھن میں حضرت خواجہ غلام فرید بجانب مشرق اڑتالیس میل دور تونسہ شریف میں حضرت سلیمان تونسوی اور مغرب کی سمت پچیس میل دور حضرت سید احمد سلطان سخی سرور شہید آسودہ خواب ہیں۔
سخی سرور میں صرف ایک ہی چھوٹا سا ٹیڑھا میڑھا بازار ہےجس کےشمالی کنارےپر بسوں کا اڈا اور جنوبی سرےپر حضرت سلطان سخی سرور شہید کےمزارِ اقدس کی عمارت کا صدر دروازہ کھلتا ہی۔ اس کےاوپر دو منزلہ کمرےبنےہوئےہیں اندر داخل ہوں تو سامنےکشادہ صحن اور تین کمرےہیں جن میں سےایک میں مزارِ مبارک پر چڑھائےگئےپرانےغلاف رکھےہیں۔ اس کےساتھ چھوٹےسےتاریک کمرےمیں ہر وقت شمع روشن رہتی ہی۔ دیوار کےساتھ اونچا سا تھڑا ہےجس پر مصلیٰ بچھا ہوا ہےاس پر حضرت صاحب عبادت و ریاضت کیا کرتےتھی۔ اس سےملحقہ کشادہ کمرےمیں دائیں کونےمیں آپ کا مزار ہی۔ اس کےقریب‘ چھوٹےسےچبوترےپر ہر وقت چراغ روشن رہتا ہی۔ مزارِ اقدس کےقدموں کی طرف نیچےزمین کےاندر ڈیڑھ دو بالشت چوڑا سوراخ ہےجو قبرمبارک کےاندر جاتا ہی۔ زائرین اس میں ہاتھ ڈال کر کچھ تلاش کرتےہیں۔ بعض اوقات کسی کو کوئی چیز مل بھی جاتی ہےتو وہ خود کو بڑا خوش نصیب سمجھتا ہی۔ مقامی لوگوں کےسوا آٹھ صدیاں قبل جب حضرت سلطان سخی سرور شہادت کےبعد یہاں دفن کئےگئےتو اس ویرانےمیں آپ کی بیوی اور دو بچےبھی ساتھ تھی۔ آپ کی بیوی نےبارگاہِ خداوندی میں فریاد کی کہ اب مجھےکس کا سہارا ہےتو حکم ایزدی سےاس جگہ سےزمین شق ہو گئی جس میں آ پکےبیوی بچےسما گئی۔ اس واقعہ کی کسی مستند حوالےسےتصدیق نہیں ہو سکی لیکن اتنا ضرور ہےکہ آپ کی محترمہ بیگم کی قبر یہیں پر ہی۔
مقبرےکےکمرےاور صحن کےبائیں جانب مسجد ہےجس کےتین محراب ہیں۔ درمیان میں چھت کےقریب چاروں طرف حضرت سلطان سخی سرور شہید کا شجرہ نسب حضرت سید احمد سخی سرور لعلاں والا بن سید زین العابدین بن سید عمر بن سید عبدالطیف بن سید شیخار بن سید اسمٰعیل بن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن زین العابدین بن حضرت حسین بن حضرت علی اور ہر کونےمیں آپ کےچار یاروں سخی بادشاہ سید علی شہید‘ سیدنور شہید‘ سید عمر شہید اور سید اسحاق شہید کےاسمائےگرامی رقم ہیں۔
مسجد کےبالمقابل مشرقی سمت اونچی سی جگہ پر دو بہت بڑی دیگیں پڑی ہیں جن میں منوں اناج پک سکتا ہےکہتےہیں جب حضرت سخی سرور حیات تھےتو بغیر آگ جلائےان دیگوں میں جو چاہتےپکا لیا کرتےتھی۔
بجانب مغرب جدھر آپ کا چہرہ انور ہےآپ کےچار یاروں کی قبور ہیں۔ حضرت سید علی شہید اور حضرت سیدنور شہید کی پختہ قبریں ایک پہاڑی کی چوٹی پر ہیں جبکہ حضرت سیدعمر شہید اور حضرت اسحاق شہید کی کچی قبور اس کےبالمقابل دوسری پہاڑی کی چوڑی پر ہیں۔ چشم باطن سےدیکھنےوالوں کو یوں احساس ہوتا ہےجیسےآپ اپنےیاروں کی طرف دیکھ رہےہوں۔
|