|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
مذموم مقاصد اور امت کا لائحہ عمل
-7 یورپ اور امریکہ میں رہائش پذیر مسلمانوں کےممکنہ طور پرہونےوالےاحتجاجی اقدامات کو بہانہ بنا کر ان کےخلاف کارروائیاں کرنےکی راہ ہموار کرنا یا ان کیلئےایسےحالات پیدا کرنا کہ وہ خود ان ممالک سےرخت سفر باندھ لیں۔
امت مسلمہ کےہر فرد ‘مسلمان ممالک کی حکومتوں اور او
آئی سی کی یہ ذمہ داری ہےکہ وہ اپنےانفرادی یا اجتماعی فعل یا ردعمل سےان مقاصد کی جزوی تکمیل کا بھی دانستہ یا غیردانستہ ذریعہ نہ بنیں امت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں سےنمٹنےکےضمن میں او
آئی سی کا کردار غیرموثر رہا ہی۔ او
آئی سی کےسربراہی اجلاس کےبعد 8 دسمبر 2005ءکو ”اعلان مکہ“ جاری کیا گیا تھا اس سےامت مسلمہ کو عمومی طور سےمایوسی ہوئی تھی کہ دہشت گردی کی متفقہ تعریف کرنی‘ افغانستان سےاتحادی افواج کےانخلا ان کی جگہ اسلامی ملکوں کی فوج کی تعیناتی اور عراق سےاتحادی افواج کی واپسی کےنظام الاوقات کا اعلان کرنےکا کوئی مطالبہ شامل نہیں تھا۔ ستمبر 2005ءمیں توہین ر سالت پر مبنی خاکےڈینش زبان میں چھپنےوالےڈنمارک کےایک اخبار میں شائع ہوئےتھےلیکن او
آئی سی نےاس کا نوٹس نہیں لیا چنانچہ ڈنمارک اور یورپ کےکچھ اخبارات میں ان اشتعال انگیز خاکوں کی اشاعت کےخلاف احتجاجی مظاہروں میں کہیں کہیں تشدد کا جو عنصر شامل ہوا ہےاس کی وجہ او
آئی سی اور مسلمان حکومتوں کی بےعملی او ربےحسی سےپیدا ہونےوالی بددلی اور مایوسی بھی ہی۔ اب یہ ازحد ضروری ہےکہ احتجاج پروقار اور پرامن ہوں۔
توہین آمیز خاکوں کی اشاعت سےپیدا ہونےوالےچیلنجوں سےعہدہ برآ ہونےکیلئےایک موثر اور قابل عمل حکمت عملی وضع کرنا ہو گی‘ چنانچہ یہ ضروری ہےکہ نہ صرف ان توہین
آمیز خاکوں کےضمن میں مغرب کی
آرائ.... بلکہ اسلامی دنیا ویورپی یونین کےدرمیان معاشی واقتصادی روابط اور عالم اسلام کی عماشی‘ اقتصادی اور سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھا جائی‘ چند مثبت
آراءیہ ہی:
(1)آسٹریا کےصدر نےجو اس وقت یورپی یونین کےصدر بھی ہیں کہا ہےکہ ذرائع ابلاغ کو مسلمانوں کےتوہین رسالت کےنظریہ کی پاسداری کرنا چاہیی۔ (2) سابق امریکی صدر بل کلنٹن نےیورپی اخبارات میں توہین
آمیز خاکوں کی اشاعت کی مذمت کرتےہوئےکہا کہ یہ مذہبی اور اخلاقی اقدار کےخلاف ہیں۔ انہوں نےمتعلقہ ممالک پر زور دیا کہ وہ ان خاکوں کو شائع کرنےوالوں کو سزا دیں۔ (3) پاکستان میں متعین جرمنی کےسفیر نےکہا کہ یورپ میں اخبارات کنٹرول کرنےکا کوئی نظام یا قانون نہیں ہےجس کی وجہ سےاخبارات قابل اعتراض مواد بھی چھاپ دیتےہیں۔ انہوں نےتجویز پیش کی کہ اقوام متحدہ کی اصلاح کی جائےاور اسلامی ملکوں وتیسری دنیا کےملکوں کو زیادہ منصفانہ نمائندگی دی جائی۔ انہوں نےاس رائےکا بھی اظہار کیا کہ او
آئی سی اور یورپی یونین مل کر اس نمائندگی کو یقینی بنا سکتےہیں تاکہ بہت سےمسائل کا حل تلاش کیا جا سکی۔ (4) دولت مشترکہ کےسیکرٹری جنرل کر کہنا ہےکہ دولت مشترکہ کا نقطہ نظریہ ہےکہ دنیا میں
آزادی اظہار ہونا چاہیےمگر اس کےساتھ ذمہ داری کا احساس بھی یقینی طور پر ہونا چاہیےتاکہ کسی فرد‘ قوم یا مذہب کی ہتک نہ ہو۔ (5) نارویجن کرسچن ایڈ نےکہا کہ ہےکہ ناروےکےعیسائیوں نےسب سےپہلےتوہین
آمیز گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی مذمت کی تھی۔ واضح رہےکہ ناروےکی حکومت نےاپنےملک کےاخبار میں ان خاکوں کی اشاعت پر معافی مانگ لی ہی۔
توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کےضمن میں منفی اور جارحانہ بیانات میں سےکچھ یہ ہیں:
-1 یورپی یونین نےکہا ہےکہ ڈنمارک پر حملہ یورپی یونین کےتمام ملکوں پر حملہ تصور ہو گا جبکہ یورپی کمیشن کےصدر نےتنبیہ کی کہ کچھ مسلمان ملکوں کی جانب سےڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ دراصل یورپ کی مصنوعات کا بائیکاٹ تصور ہو گا۔
-2 اسلام آباد میں متعین ڈنمارک کےسفیر (جو ڈنمارک کا سفارت خانہ عارضی طور پر بند ہونےسےپاکستان سےجا چکےہیں) نےکہا تھا کہ ڈنمارک سےمسلم ممالک کو کی جانےوالی برآمدات ان کےملک کی برآمدات کا صرف 3.2 فیصد ہیں۔ اس لیےمسلم ممالک کی جانب سےان کی مصنوعات کےبائیکاٹ کا ڈنمارک پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔
-3 یورپی یونین کی اسمبلی نے16فروری 2006ءکو ایک قراراداد منظور کی ہےجس میں کہا
گیا ہےکہ آزادی اظہار اور آزادی صحافت ایک عالمگیر حق ہے۔
|