|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
توہین آمیز کارٹون....دعوت غوروفکر
(ممتاز دانشور ڈاکٹر مہدی حسن کی وقار ملک سےگفتگو)
آج کل دنیا بھر میں ڈنمارک کےایک اخبار میں پیغمبراسلام کےبارےمیں بارہ کارٹون نما سکیچز شائع کرنےکےخلاف احتجاج کی لہر جاری ہی، جس سےبعض ملکوں میں لاءاینڈ آرڈر کا مسئلہ بھی پیدا ہوا، متعدد افراد ہلاک ہوئےاور کئی مسلمان ممالک میں ڈنمارک اور بعض دیگر مغربی ممالک کےسفارت خانوں پر توڑ پھوڑ اور آگ لگانےکےواقعات بھی رو نما ہوچکےہیں اور یہ سلسلہ رکتا دکھائی نہیں دےرہا۔ صورت حال کی اس سنگینی کو دیکھتےہوئےڈنمارک کےمتعلقہ اخبار کی انتظامیہ نےیہ اعلان کیا کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کےبارےمیں بھی اتنی ہی تعداد میں کارٹون شائع کرےگی تاکہ مسلم دنیا کو یہ یقین ہو سکےکہ ان کا یہ فعل بد نیتی پر مبنی نہیں تھا، بلکہ محض آزادی ، تحریر اور آزادی فکر کےاستعمال کےزمرےمیں آتا ہی، جبکہ مسلمانوں کی تمام انبیائےکرام کےبارےمیں اپروچ یکسر مختلف ہی، ان پر تمام پیغمبروں کا احترام دل و جان سےفرض ہی، جس کی بناءپر مذکورہ اخبار کا اگلا فعل بھی ان کے دینی جذبات کو ٹھنڈا کرنےکی بجائےانہیں مزید ہوا دینےکا باعث بنےگا۔ ڈنمارک اور پھر اس کےبعد فرانس، ناروے، اٹلی ، سپین اور جرمنی کےاخبارات میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت سےمغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کےمابین نفرت کی ایک ایسی بنیاد رکھ دی گئی ہی، جسےاگر جڑ سےاکھاڑا نہ گیا تو پھر ان تہذیبوں کا ٹکرائوناگزیر ہوجائےگا اور پھر یہ معاملہ بڑھتےبڑھتےایک ایسی عالمی جنگ میں بدل سکتا ہے، جو دنیا میں وہ تباہی لائےگی، جس کےتصور سےہی انسان پناہ مانگتا ہی۔ اگرچہ اس وقت دنیا کےکئی ممالک میں مسلمان سیاسی بنیادوں پر زیر عتاب ہیں۔ ان کےاس زوال کی متعدد وجوہ ہیں، جن میں تعلیم کی کمی، جمہوریت کا فقدان اور مسلمان حکمرانوں کی ذاتی مجبوریوں کی بناءپر امریکہ حامی پالیسیاں سر فہرست ہیں، مگر کسی بھی جگہ معاملہ اس قدر دینی لگائو اور غیرت و حمیت کےامتحان کا نہ تھا۔مذکورہ بالا کارٹونوں کی اشاعت پر مغربی ممالک میں مقیم ان کی تہذیب میں رچےبسےمسلمانوں کی طرف سےبھی جو رد عمل سامنےآیا ہی، اس سےیقینا ساری دنیا کی آنکھیں کھل جانی چاہیئں کہ مسلمان نبی کریم سےکس قدر گہری جذباتی و قلبی وابستگی رکھتےہیں، جبکہ امریکہ کےحامی مسلمان حکمرانوں کےبیانات بھی ا س بات کا اعلان قرار دئیےجا سکتےہیں کہ یہ وہ معاملہ ہی، جس پر کوئی کمپرومائز ممکن نہیں ۔ مقام افسوس ہےکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کےشدید احتجاج کےباوجود ناپاک سازش کےمرتکب افراد نہ صرف یہ کہ معذرت کےلئےتیار نہیں ہورہے، بلکہ بعض یورپی پبلشرز ان کا رٹونوں کو کتابوں میں شائع کرنےکی بھی باتیں کر رہےہیں۔ ایسی فضا میں احتجاج کےنتیجےمیں محض اپنی جانوں کا نذرانہ، املاک کا ضیاع اور فلک شگاف نعرےمسئلےکا حل نہیں، بلکہ اس بات پر غورو فکر کرنےکا وقت ہےکہ ان اخبارات نےمذکورہ کارٹون کن مقاصد کےلئےشائع کئےتھےاور کہیں ہم اپنےاحتجاج سےان مقاصد کی تکمیل کی راہ تو ہموار نہیں کر رہی۔ اس صورت حال میں دنیا کی مہذب اور با ضمیر اقوام کو کیسےہمنوا بنایا جاسکتا ہی©؟اور مسلمانوں کےلئےعالمی سطح پر کون سےایسےاقدامات کرنےضروری ہوگئےہیں، جن کی وجہ سےکوئی بھی ملک مستقبل میں اس قسم کی ناپاک حرکت کا مرتکب نہ ہوسکی۔آئیےقارئین دیکھتےہیں کہ ممتاز دانش اور ڈاکٹر مہدی حسن درج بالا سوالات کےحوالےسےاس اہم اور حساس مسئلےپر کیسےروشنی ڈالتےہیں؟
٭...... اخبار میں کارٹون بنانےکا سلسلہ تقریباً دوسوسال سےرائج ہی۔ کارٹون کو
تصویری طنز کہا جاتا ہی، جس میں کارٹون بنانےوالا کم سےکم خطوط کھینچ کر کوئی اہم
بات طنزیہ انداز سےقارئین کےسامنےپیش کرتا ہی۔ اچھا کارٹون وہ سمجھا جاتا ہی، جس کو
بنانےکےبعد اس کےنیچےکوئی عبارت لکھنےکی ضرورت محسوس نہ ہو ، بلکہ سکیچ بذاتِ خود
خیال کی تشریح کرتا ہی۔ برصغیر کی صحافت میں بھی کارٹون بنانےکی روایت بہت پرانی
ہی۔
|