|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
ڈنمارک کا بائیکاٹ ......
یہ ضروری نہیں کہ واقعات کےتسلسل اور حاصل شدہ یا اخذ کر دہ نتائج کو ہمیشہ ایک ہی منطق کےتناظر میں دیکھا جائی، نہ ہی وہ ہمیشہ کسی مشترک منطق کےرہین منت رہتےہیں۔ پیغمبر اسلام (پیغمبر اسلام کا ترجمہ کرنا چاہیں تو آپ ”پیغمبر امن“ بھی لکھ سکتےہیں، کیونکہ اسلام کےلغوی معنی ”امن“ہی ہیں)کےتوہین آمیز اور اشتعال انگیز کارٹونوں کی اشاعت پہلےہی متعدد پر تشدد واقعات کا باعث بن چکی ہی، جن کی باز گشت مستقبل میں سنائی دیتی رہےگی۔ مثلاً کسی بھی ”روزنامہ“ میں صرف ایک مرتبہ یہ چھپنا کافی ہوگا کہ افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی ہلکےپھلکےعوامی اضطراب کا باعث بن رہی ہی، اس طرح ”ہلکےپھلکےاضطراب “کو شدیدغم و غصےمیں بدلنےکی وجہ ہاتھ آجائےگی ۔ ڈنمارک کےایک غیر ذمہ داراخبار نےعقیدہ اسلام کےپیروکاروں(مسلمانوں) کو اکسانےاور اشتعال دلانےکی جو شعوری کوشش ہو چکی ہی، اس پر بہت سےسوالات اٹھائےجاسکتےہیں۔ شاید ڈنمارک کی حکومت بھی ان سوالات کا کافی اور درست جواب دےسکی، تاہم ایک بات یقین سےکہی جا سکتی ہےکہ اس کےناقابل فہم رویےنے”جلتی پر تیل“کا کام کیا۔ پہلا سوال ہر صورت حد درجہ سادہ ہونا چاہئےاور وہ سوال ہی۔ ”کیوں “؟یعنی ایسا کیوں ہوا؟اس سوال کےایک سےزیادہ جواب دئیےجا سکتےہیں۔ زیر بحث اخبار کا ایک مدیر یورپی ٹیلی ویژن کی سکرین پر آیا۔ اس کا لہجہ صاف چغلی کھا رہا تھا کہ وہ ایک تصنع پسند شخص ہی۔ اس نےکہا کہ کارٹونوں کی اشاعت کا مقصد مسلمانوں کی دلآزاری ہر گز نہ تھا۔ صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ مسلمان بڑی تعداد میں دہشت گرد بن چکےہیں۔ یہ دلیل یا وضاحت کسی ایسےشخص کو ہی قائل کر سکتی ہی، جس کا ذہن خود فریبی کا شکار ہو۔ اگر مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنا ہی مقصود تھا تو یہ کام اسامہ کی تصویر یا کارٹون سےکیوں نہ لیا گیا ؟اس مذہب کےپیغمبر کا خاکہ کیوں شائع کیا گیا، جس مذہب میں تصویر کشی کا ملا ممنوع ہےاور جو بت پرستی کو سختی سےمسترد کرتا ہی؟ اسامہ کےکارٹون ہمارےاخبارات میں اکثر شائع ہوتے رہتےہیں، لیکن ان پر کبھی کسی نےاعتراض نہیں کیا۔مندرجہ بالا دلیل میں وزن پیدا کرنےکےلئےایک اور دلیل کا سہارا لینےکی کوشش کی گئی ۔یورپ کا بین البراعظمی میڈیا آخرالذکر دلیل کی مسلسل توثیق کر رہا ہےاور وہ دلیل کیا ہی؟پریس کی آزادی....... یہاں تک کہ ”لی ماندی“جیسا معروف اخبار وہ خاکےدو مرتبہ شائع کر چکا ہی۔ لیکن آج تک کوئی ایسا ملک یا معاشرہ میری نظر سےنہیں گزرا، جہاں آزادی ءاظہار رائےکو اس حد تک بےلگام کر دیا جائےکہ کوئی شخص پریس کےخلاف ہتک عزت کا دعویٰ ہی نہ کرسکی، یعنی یعنی اگر پریس آزادی کی آڑ میں کسی کو رسوا کرنےکی کوشش کرےتو متاثرہ شخص، ادارہ یا عقیدہ(یعنی کسی متاثرہ عقیدےسےتعلق رکھنےوالا شخص)اپنی رسوائی کےخلاف قانونی چارہ جوئی بھی نہ کر سکی۔ ہمارےایک ایڈیٹر نےنئی دہلی میں ڈنمارک کےسفارتخانےسےرابطہ کیا۔ وہ جاننا چاہتےتھےکہ آیا ان کےملک میں ایسےقوانین موجود ہیں، جن کےتحت آزادی اظہار رائےکا ڈسا ہوا کوئی شخص داد فریاد کر سکی۔ انہوں نےوعدہ کیا کہ وہ ہمیں جلد ہی اس سوال کا جواب دیں گی۔ ہم ابھی تک ان لوگوں کی طرف سےجواب کےمنتظر ہیں، لیکن یہ انٹر نیٹ کا دور ہی، معلومات جس قسم کی بھی ہوں، ان کا حصول دشوار نہیں رہ گیا۔ میں یہاں ڈنمارک کی تعزیرات کی دفعہ266 بی کا حوالہ دینا چاہتا ہوں ، جس کےمطابق :”اگر کوئی شخص سر عام یا ارادتاً بہت سےلوگوں کےعلم میں لا کر کوئی اس قسم کا بیان دےیا ایسی معلومات مہیا کری، جن میں سےکسی مخصوص طبقےکی توہین کا پہلو نکلتا ہو، وہ بیان دھمکی آمیز ہو، نسلی تعصب کو ہوا دی، کسی کےعقیدےپر حرف آتا ہو یا کسی مخصوص طبقےکےجنسی رجحانات کو اعتراض اور تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو تو اسےجرمانہ کیا جاسکتا ہےیا دوسال تک قید محض کی سزا سنائی جا سکتی ہی“۔
مزید برآں”دفعہ140“کےتحت جس مذہب کےپیرو کار اس ملک میں قانونی طور پر مقیم
ہیں، ان کا مذاق اڑانا یا طریق عبادت کی تضحیک کرنا جرم ہی۔
|