|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
عالم کفر متحد ہوسکتا ہےتو عالم اسلام کیوں نہیں؟
مرنگ ایک پہاڑی قوم ہی‘ ان کا لباس اتنا مختصر ہوتا ہےکہ لباس کےمتعلق
آپ جتنا مختصر سےمختصر سوچ سکتےہیں بلکہ اس سےبھی زیادہ مختصر۔شہری زندگی ان لوگوں کو پسند نہیں‘ ہمیشہ پہاڑوں اور وہ بھی دشوار گزار اور مشکل چڑھائی والےپہاڑوں میں رہتےہیں۔ مکان بھی ہمیشہ سادہ بناتےہیں اور کھانا بھی تکلف سےخالی ہوتا ہی۔ کھیتی باڑی کرکےوہ گزارہ کرتےہیں اور بعض گھریلو استعمال کی چیزیں تیار کرکےبیچتےہیں۔ سئور کا شکار اور اس کا گوشت ان کو مرغوب ہی۔
کتےکا خون خاص طریقہ سےاستعمال کرتےہیں جو ظالمانہ ہونےکےساتھ ساتھ ان کی قلبی شقاوت کی غمازی بھی کرتا ہے۔ وہ یہ کہ زندہ کتےکو رسیوں سےلٹکا دیتےہیں اور اس کےنیچےچاولوں سےبھرا ٹب رکھ دیتےہیں۔ پھر اس کتےمیں چھرا گھونپتےہیں جس سےکتےکےبدن سےخون کےفوارےنکل کر ان چاولوں پر گرتےہیں۔ پھر اسی خون سےوہ چاول تیار کرکےکھاتےہیں۔ اور کتےکا گوشت بھی ‘ بلکہ وہ تو سانپ اور ہر قسم کےجانور ‘ درندوں کا گوشت تک کھاتےہیں۔ ان میں کتا کھانےکا ایک طریقہ یہ بھی ہےکہ کتےکو خوب چاول کھلاتےہیں پھر اس چاول کےہضم ہونےسےپہلےہی اس کتےکو جلا کر سیخ نما بناتےہیں ‘ اس طرح چاول ‘ گوشت بیک وقت تیار کرتےہیں اور پھر مزےلےلےکر کھاتےہیں۔
ان کی بری عادتوں میں سےیہ بھی ہےکہ جب ان کےہاں کسی کی موت کا وقت قریب ہوجائےاور گھر والوں کو اندازہ ہو جائےکہ اب یہ مرنےوالا ہےتو اس کو گھر میں تنہا چھوڑ کر سارےگھر والے نکل جاتےہیں اور جب تک مرنےکا یقین نہیں ہوجاتا ‘ واپس نہیں
آتی۔ ان کا کہنا ہےکہ
آدمی کو اس کی مرضی کےموافق مرنےدینا چاہیی۔ اس لیے ہم نکل جاتےہیں تاکہ جس طرح مرنا چاہےمرے ‘ ہم لوگوں کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیی۔
جب سےمیں نےاس قوم کی یہ حالت سنی تھی مجھےبڑا تعجب ہوتا تھا اور ان کی اس سخت دلی پر ہمیشہ حیرت ہوتی تھی کہ جس طرح اس مصیبت زدہ شخص کو (جو اپنے ہی گھرانہ کا فرد ہی) اس کرب میں چھوڑ کر چلےجانےکو دل کرتا ہےاور اپنی مسلم قوم پر بڑا فخر محسوس کرتا تھا کہ مسلمان اپنےبھائی کی مدد میں جان کی بازی لگا دیتےہیں۔ مسلمانوں کےنبی نےکس طرح ایک دوسرےکی مدد کرنےکی تلقین فرمائی ہی۔ کس محبت سےمسلمان ایک دوسرےکےدکھ درد میں شریک ہوتےہیں ‘ پھر اس کےکتنےفضائل مسلمانوں کےدین میں موجود ہیں۔ ادھر واقعات بھی سامنےتھےکہ مسلمان کسی تڑپتےکو یوں تن تنہا چھوڑ کر اسےاپنی مرضی سےمرنےکےلیےنہیں چھوڑ دیتے بلکہ
آخر وقت تک اس کی دلداری اور اس کو تسلی دیتےرہتےہیں۔
واقعتاً تاریخ نےمسلمانوں کےوہ دور بھی ضرور دیکھےہیں جب سارےمسلمان ایک ہی جسم
کی مانند تھی‘ دنیا کےکسی بھی حصےمیں کسی بھی مسلمان کو تکلیف پہنچنےپر مسلم قوم
تڑپ جایا کرتی تھی اور اس دشمن کےخلاف متحد ہوجاتی تھی۔ بیعت رضوان سےلےکر محمد بن
قاسم کی سندھ آمد تک کےواقعات پر آپ نظر ڈال لیجیے¿ ‘ ہر واقعہ مسلمانوں کی ہمدردی
‘ یگانگت ‘ الفت اور ایک دوسرےکےغم میں شریک ہونےکی بہترین مثال ہی‘لیکن جوں جوں
مسلمان اپنےنبی کی تعلیم سے دور ہوتےجا رہےہیں ‘ مال و دولت کی محبت ان میں جگہ پا
رہی ہےاور وہ دین سےدور ہو رہےہیں جس کےنتیجےمیں اس الفت و محبت اور ہمدردی سےبھی
محروم ہو رہےہیں۔
|