|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
مسلمانوں کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیی؟
ڈنمارک کےایک اخبار میں گستاخانہ کارٹونوں کی اشاعت نےنہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیا بھر میں ایک کہرام مچا دیا ہی۔ اگرچہ اب ناروے‘ فرانس ‘ اٹلی ‘جرمنی اور سپین کے اخبارات بھی اپنےاپنےانداز میں ڈنمارک کےاخبار کی اس کارروائی کو سپورٹ کیا ہی‘ مگر فرانسیسی اخبار کےمالک کا رویہ قدرےبہترتھا۔ اس نےاپنےملازم ایڈیٹر کو اس مذموم حرکت پر ملازم سےفارغ کر دیا جبکہ دوسرےممالک کےاخبارات نےاس معاملےکومذہبی نقطہ ¿ نظر سےدیکھنےکی بجائے‘
آزادی اظہار کی عینک سےدیکھا اور ڈنمارک کےاخبار کی حمایت میں وہ کچھ کر دکھایا ‘ جوان کےنزدیک بنیاد پرست اور انتہا پسند مسلمانوں کی خصوصیت ہی۔
مقام افسوس یہ ہےکہ
آزادی اظہار کی
آڑمیں اشتعال انگیزی اور منافرت کی اینٹوں سےایسی بنیاد رکھ دی گئی ہی‘ جس کو اگر اکھاڑانہ گیا تو یہ دنیا میں ٹکرائو کو جنم دےگی‘اور تہذیبوں کےتصادم کو کنٹرول کرنا کسی کےبس کا روگ نہیں رہےگا۔ اطمینان بخش بات یہ ہےکہ دین سےدوری کےاس دور میں بھی دنیا کےہر خطےمیں مسلمانوں نےاحتجاج میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ کسی ملک نےاپنےسفیروں کو واپس بلا لیا‘ تو کسی نےان ممالک کےسفیروں کی خوب جواب طلبی کی۔ بعض ممالک نےان ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تو کچھ ممالک نےاپنےتاریخی مظاہروں سےدنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ نبی کریم کی شان میں گستاخی کےمرتکب کسی بھی فرد یا حکومت کوکسی قیمت پر معاف کرنےکےلیےتیار نہیں۔ کئی ممالک کےغیور مسلمان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنےمیں بھی پیچھےنہیں رہی۔ مگر چند ممالک میں مظاہرین نےاحتجاج کےدوران توڑ پھوڑ کرتےہوئےکئی قیمتی املاک کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ توہین رسالت پر مبنی کارٹونوں کی اشاعت کا یہ سلسلہ ایک اہم اور حساس معاملہ ہی‘ جو بہت سےسوالات کو جنم دینا ہی۔ اس وقت بات صرف عقیدت اور جذبات نہیں ‘ بلکہ حالات و واقعات کےتناظر میں سوچ بچار کی بھی ہی۔
اس صورت حال میں چند اہم سوالات اپنی جگہ جواب طلب ہیں۔ مثلاّ یہ کہ ان کارٹونوں کی اشاعت کا اصل مقصد کیا تھا ؟ اور مذکورہ اخبار وہ مقصد حاصل کرنےمیں کس حد تک کامیاب رہی؟ کیا مسلمانوں کی طرف سےوہی ردعمل سامنےآیا جو
آنا چاہےتھا یا پھر حکومتوں اور عوام کی سوچ میں اس حوالےسےبھی کوئی تضاد محسوس ہوا؟
آزادی ¿ تحریر و فکر کےموجودہ دور میں کسی ملک کی اپنی اقدار پر مبنی اس قسم کی حرکت کو مہذب دنیا کیا نام دےگی؟ اگر مغربی معاشرہ اپنی سرکردہ شخصیات کو ہدف تنقید بنا سکتا ہےتو ان کےلیےمسلمانوں کےمذہبی جذبات کا خیال رکھنا کیوں ضروری ہےہی؟ مسلمانوں کو موجودہ حالات میں ایسی کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیی‘ جس سےنہ صرف اس مذموم حرکت کا تدارک ہوسکی‘بلکہ
آئندہ بھی کوئی ایسی حرکت کا سوچ نہ سکے؟ ان توہین
آمیز کارٹونوں کی اشاعت کےحوالےسےاحتجاج کےلیےآئینی اور قانونی راستہ کیا ہوسکتاہی؟ اگر انسانی حقوق کی پامالی پر اقوام متحدہ ازخود مداخلت کرسکتی ہی‘ تو دنیا کےایک ارب تیس کروڑ مسلمانوں کےدینی جذبات مجروح کرنےپر وہ خاموش کیوں ہی؟....
آئیےقارئین دیکھتےہیں کہ ممتاز دانشور اور ماہر قانون ایس ایم ظفر درج بالا سوالات کےتناظر میں کیا تجزیہ پیش کرتےہیں؟
٭....چند روز قبل ڈنمارک کےاخبار جٹ لینڈ پوسٹ میں بارہ کارٹون پیغمبر اسلام
سےمتعلق چھپے‘ جن میں انہیں مختلف پیرائےمیں پیش کیا گیا جبکہ مشترکہ بات یہ تھی کہ
ان تمام کارٹونوں میں تضحیک اور طنز کا پہلو موجود تھا۔ امر واقع یہ ہےکہ جب لینڈ
پوسٹ کےایڈیٹر نےازخود اپنےاخبار سےمتعلقہ کارٹونسٹوں سےیہ کہا کہ وہ حضرت محمد
کےکارٹون بنائیں ‘ جن میں وہ اپنی سوچ کےمطابق کہ انہیں کون کون سی باتیں عوام تک
پہنچانی ضروری ہیں ‘ ان کا تصور پیش کریں اور بہت سارےبنائےہوئےکارٹونوں میں سےبارہ
کارٹونوں کو منتخب کرنےکےبعد جٹ لینڈ پوسٹ میں ان کی اشاعت ممکن ہوئی۔
|