توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
خاکوں کےخلاف مسلم اُمہ کےاجتماعی اقدامات
پائنا کےزیر اہتمام رائونڈ ٹیبل کانفرنس
خاکوں کا مکمل پس منظر اور ڈینش مسلمانوں کی داستان عزیمت اسلامی دنیا میں اٹھنےوالےطوفان کےپس منظر میں تجزیوں اور مشترکہ حکمت عملی پر مشتمل رپورٹ
تریب: الطاف حسن قریشی‘ محمد اقبال قریشی
اس ضمن میں بہت سی تجاویز دی گئیں جو دو جلدوں پر مشتمل انسائیکلو پیڈیا میں شائع ہوئیں۔ میں نےاس اخبار کی لائبریری میں انسائیکلو پیڈیا کا مطالعہ کیا جس میں حتمی تجویز یہ دی گئی تھی کہ:
وہ بینکنگ‘ انشورنس‘ پرنٹ میڈیا اور گولڈ بزنس میں سرمایہ کاری کریں۔
آج یہ تینوں کاروبار انہی کےہاتھ میں ہیں۔ توہین رسالت کےحالیہ واقعات کی جڑیں اس کانفرنس کی تجاویز سےجاملتی ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری‘ شعبہ ابلاغیاتِ عامہ پنجاب یونیورسٹی:
بہت سی باتیں ہوچکی ہیں۔ ہمارا احتجاج بجا ہےمگر
آپ نےدیکھا ہو گا کہ عراق پر حملےسےپہلےیورپ اور امریکہ کےعوام نےبڑےپیمانےپر مظاہرےکیےتھےکہ عراق پر حملہ نہ کیا جائی۔ ایک مسلمان ملک پر حملہ روکنےکےلیےعیسائی عوام کا یہ جذبہ بلاشبہ قابل ستائش ہےجسےہمیں اس وقت فراموش نہیں کرنا چاہیی۔
امریکہ سےواپسی پر جیون خان اور میں اپنا یہ تجزیہ پیش کررہےتھےکہ ہم وہاں کی
آبادی کو تین حصوں میں تقسیم کرسکتےہیں۔
اول حکمران طبقہ جو اپنےمفاد میں کام کرتا ہی‘ دوم وہاں کا دانش مند طبقہ اور میڈیا جو عالم اسلام کےخلاف
آئےدن کوئی نہ کوئی زہریلی کارروائی کرتا رہتا ہی‘ سوم وہاں کےعوام ہیں جن کو مسلمانوں سےکوئی پر خاش نہیں۔ مغربی دنیا کی مذمت کرتےوقت ہم اس میں تمام طبقےشامل نہ کرلیا کریں۔ مجاہد منصوری صاحب کےتجزیےکےمطابق ہمیں سب سےپہلےسازش کا ماسٹر مائنڈ تلاش کرنا ہوگا۔
پروفیسر حافظ محمد اشرف‘ چیف انسٹر کٹرسول سروس اکیڈیمی‘ لاہور:
ہماری تمام ترکوتاہیوں کےباوجود اسلام بڑی تیزی سےپھیل رہا ہی۔ اس میں ہمارا یا مسلم اُمہ کا کوئی خاص کمال نہیں۔ یہ سب قرآن مجید کی برکت ہی۔ قرآن مجید ہی غیر تبدیل شدہ اور حکمت سےمعمور
آخری آسمانی کتاب ہےاور ہر سلیم الفطرت انسان ضرور اس کےمطالعےسےاثر قبول کرتا ہی‘ تاہم جس قسم کےمعاشرےہم نےمسلم دنیا میں تشکیل دےرکھےہیں وہ اشاعت اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنےہوئےہیں۔ سب سےپہلےہمیں اپنا گھر درست کرنا ہوگا۔ درحقیقت مسلم دنیا میں ایک نو
آبادیاتی اور استعماری نظام کام کررہا ہی۔ یہ مغرب کی ایک چال ہےکہ پہلےاس نےمسلم دنیا کو چھوٹےچھوٹےٹکڑوں میں تقسیم کیا اور ساتھ ہی اُن پر اپنےکٹھ پتلی حکمران مسلط کردیےجو مسلمانوں ہی کےخلاف سرگرم رہتےہیں۔ ان حالات میں ہمارےلیےاپنی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنا ضروری ہو گیا ہی۔
پاکستان اسلام کےنام پر بنا تھا اور اس میں اسلامی نظام نافذ نہ کرکےہم مجرمانہ غفلت کےمرتکب ہورہےہیں۔ ہمارےلیےسلامتی کا راستہ یہ ہےکہ یہاں ایک ایسا اسلامی فلاحی معاشرہ قائم کریں جس کےثمرات عام لوگوں تک پہنچیں اور اس کی برکات سےیہ ارض مقدس منور ہوجائی۔ اس کےبعد ہی ہماری نظریاتی بنیادیں مضبوط ہوں گی اور دشمن
آقائےنامدار کی ناموس پر حرف زنی کی جرا¿ت نہیں کرےگا۔
اس مذموم واقعےکا اوّلین ذمےدار ملک ڈنمارک ہی۔ اس لیےہماری حکومت کو فوری طور پر اس کےساتھ ہر قسم کےتعلقات ختم کردینےچاہئیں۔
غالب امکان یہ ہےکہ امت مسلمہ کےاجتماعی اقدامات سےدوسرےمغربی ممالک بھی عبرت حاصل کریں اور مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو۔
پروفیسر مظہر معین (شعبہ عربی اورینٹل کالج‘ لاہور):
میں آپ سب کی توجہ اس امرکی طرف مبذول
کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ عالم اسلام دراصل گونگا عالم اسلام ہی‘ اس کی اپنی کوئی
مشترکہ زبان ہےہی نہیں۔ اس زاویہ نگاہ سےکیا ہوا تجزیہ ہمارےحق میں خاصا بہتر ہوگا۔
ایک مثال پڑھا لکھا مسلمان وہ ہےجو قرآن وحدیث کو سمجھ سکےاور عربی زبان پر بھی
مکمل عبور رکھتا ہو۔
|