|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
بامحمد ہوشیار
محض چندایک منافقین کو چھوڑ کر سوا ارب بےعمل یا باعمل مسلمانوں نےاپنی جان جس ہستی کےنام کردی ہوئی ہےیہ ان مسلمانوں کی دل سےنکلی دعا ہےکہ کاش یہ واقعہ ہونےسےپہلےتمام مسلمان مر گئےہوتے۔حالیہ گستاخی کی معافی تو محض دل کا بہلاوا اور طفل تسلی ہی۔ اس کا د کھ اس کا رنج اور اس کا قلق ہر مسلمان کی قبر تک اس کےساتھ جائےگا کیونکہ نہ تو اس کا کوئی مداوا ہےاور نہ ہی کوئی تلافی۔
رسول خدا کی زندگی میں بھی ایک
آدھ واقعہ ایسا رونما ہوا تھا اور ایک کعب نامی یہودی نےگستاخانہ کلمات کہےتھی‘ جس کےبارےمیں حضور نےفرمایا تھا کہ کعب مجھےایذا دیتا ہی۔ مسلمانوں میں سےکون مجھےاس سےنجات دلائےگا اور سرفروشان مصطفی نےمنشا مصطفیکےمطابق ایسا کر دکھایا۔
غیر مذاہب کےغیر مہذب لوگوں کو کیا معلوم کہ دنیا میں تشریف لائےہوئےایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نےحضور پُرنور کےامتی بننےکی شدید خواہش کی تھی اور یہی وہ محمد مصطفی ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نےراضی کرنےکی بات کی تھی۔ کیا تاریخ انسانی ایسی مثال پیش کر سکتی ہےکہ اللہ سبحان تعالیٰ نےکسی بھی محبوب بندےکو بالمشافہ بلا کر اور کمان سےبھی کم فاصلےپر رہ کر ناراز و نیاز کی باتیں کی ہوں۔ کیا کسی کےچشم تصور میں بھی یہ خیال
آسکتا ہےکہ اللہ رب العزت نےاپنےپیارےاور محبوب کو نعلین مبارک سمیت عرش معلی پر تشریف لانےکی اجازت مرحمت فرمائی ہو گی جبکہ دنیا میں اپنےمحبوب کو ستر ہزار پردوں میں مستور کرکےبھیجا۔یہی وجہ ہےکہ اللہ نےمحبوب کی تخلیق کےبعد فرمایا تھا ‘ اےمیرےمحبوب اگر میں تمہیں پیدا نہ فرماتا تو سارےجہانوں کو پیدا نہ کرتا اور نہ اپنا
آپ ظاہر کرتا۔
حسن مکمل کےادب اور جاہ و جلال و جمال کا یہ مقام ہےکہ
آپکےقریبی دوستوں اور ساتھیوں حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم نےہمہ وقت ساتھ دینےکےباوجود کبھی یہ ہمت و جرا¿ت نہیں کی تھی اور نہ ہی کسی بھی چشم انساں میں اتنی تاب تھی کہ وہ رخ مبارک کی جانب
آنکھ اٹھاکر بھی دیکھ سکےاور نہ ہی حضور کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ نےکبھی انہیں اپنےحسن تمام میں دیکھا تھا۔ جن کو اللہ تعالیٰ نےتوفیق ہی عطا نہیں فرمائی‘انہیں حضورکی عزت ‘مرتبےاور توقیر کا کیا معلوم۔ ایک دفعہ محبوب خالق و مخلوق نےسورج کو مشرق کی بجائےمغرب کی جانب طلوع ہونےکا حکم دیا تھا اور تکمیل ارشاد میں اس نےلمحےبھر کی تاخیر کی اور اللہ سبحان تعالیٰ سےاجازت مانگی۔ ارشاد ہوا کہ میرےمحبوب کی اطاعت کر لہٰذا سورج اطاعت رسول کےلیےدوڑ پڑا اور مغرب سےطلوع ہوا۔ اور اس بات سےکون انکار کرےگا کہ انہیں نہ ماننےوالوں کی فرمائش پر
آپ نےاپنی انگشت مبارک سےچاند کو دو ٹکڑےکر دیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نےقرآن میں آپ کےادب کا خصوصی تذکرہ فرمایا۔ یہ ادب کی ہی تو مثال
ہےکہ آپ جب حضرت صدیق اکبر کےزانو پر سر مبارک رکھ کر سو رہےتھےاور سانپ نےحضرت
صدیق اکبر کو کاٹ لیا تھا ‘ تکلیف کی شدت سےحضرت صدیق اکبر کی آنکھ سےآنسو ٹپک کر
آپ کےرخسار مبارک پر جب گرےتو انہیں معلوم ہوا۔ورنہ حضرت صدیق نےاحترام نبی میں
جنبش تک نہ کی اور وہی صدیق اکبر جب مسلمانوں کےحکمران تھےاور مسلمانوں کا یہ حاکم
بخوبی جانتا تھا کہ حاکم وقت اور اس کےاعمال جہنم کےسب سےزیادہ قریب ہوتےہیں لہٰذا
حکمرانوں کا دل خوف الہٰی سےکانپا کرتا تھا۔ حضرت صدیق اکبر منبر رسول پر اس جگہ پر
بیٹھ کر خطبہ دیا کرتےتھی۔ جہاں حضورکےقدم مبارک ہوا کرتےتھی۔
|