|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
تلاش ہےاُمّہ کو کسی صلاح الدین ایوبی کی!
ان دنوں سب سےزیادہ سلگتا ہوا مسئلہ ڈنمارک اور بعض دیگر یورپی ممالک کےاخبارات میں شائع ہونےوالےنبی کےبارےمیں معاذاللہ استہزائی خاکے(کارٹون) ہیں۔ اس مسئلےنےساری امت مسلمہ جھنجھوڑ کےرکھ دیا ہی۔ سچ تو یہ ہےکہ امت مسلمہ کو صدیوں سےاپنی نااتفاقی اور اپنےحکمرانوں کی بےحسی اور عیش کوشیوں کی سزا بھگت رہی ہےمگر اتنی سخت جان ہےکہ اپنی ہزار بےعملیوں کےباوجود اپنےدل سےرسول کی محبت نکلنےنہیں دیتی بلکہ اس محبت میں روز بروز اضافہ ہی ہوا ہےلیکن دوسری طرف امت مسلمہ اپنی کمزوریوں کا کوئی مستقل حل تلاش کرنےکےلیےمجتمع بھی نہیں ہوتی۔ قیادت کےانتخاب میں بھی امت مسلمہ کا یہی حال ہی۔ انتخاب قیادت میں مسلمان ہوش سےزیادہ جوش کا مظاہرہ کرتےہیں۔ جو مسلمانوں کےدشمن کو زیادہ زور شور سےللکارتا ہوا اور بغیر ہتھیار و بغیر منصوبہ بندی ‘ دنیا کی ہر طاقت سےٹکرا جانےکا نعرہ لےکر میدان میں نکل
آئے‘ یہ اسےاپنا نجات دہندہ سمجھ کےاس کےپیچھےچل پڑتےہیں۔اور نظر اٹھا کےیہ دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتےکہ دشمن مخالف چہرہ بنانےوالا دشمن کا ایجنٹ ہےاور اسےاسی مشن پر کام کرنےکےلیےمتعین کیا گیاہےکہ امت مسلمہ کو ذہنی یکسوئی مستقل منصوبہ بندی ‘فکر تدبر‘ صبر و استقامت ‘ حوصلے‘ برداشت اور معاملہ فہمی سےمحروم رکھےتاکہ امت مسلمہ جدید حالات و مسائل کا مقابلہ کرنےکی تیاری نہ کرسکی۔نتیجہ یہ ہےکہ عالمی طاقتوں کی مسلم دشمن سازشوں سےنبردآزما ہونےکےلیےنہ مسلمان قوم تیار ہےنہ اس کی قیادت۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائےتو گزشتہ تین صدیوں سےہم اس جذباتی فضا میں جی
رہےہیں کہ غیر مسلم ہماری مقدس اور برگزیدہ ترین شخصیات کےخلاف کتابیں بھی
چھاپتےہیں۔ ان کتابوں میں بیہودہ زبان بھی استعمال کرتےہیں اور ان شخصیات کےمشتعل
کرنےوالےتوہین آمیز نام بھی لکھتےہیں۔ زورشور کےساتھ اس قسم کےناروا مضامین اور
کتابیں چھاپنےکا آغاز برطانیہ سےہوا۔ حکومت برطانیہ کی طرف سےیوپی کےسابق لیفٹیننٹ
گورنر سرولیم میور نے”دی لائف آف محمد“کےنام سےکتاب لکھی اور رسول کےخلاف نازیبا
زبان استعمال کرکےاپنےدل کی خوب بھڑاس نکالی۔ اس کتاب میں کیےگئےبیہودہ اعتراضات کا
جواب سرسید احمدخان نے”خطبات احمدیہ“ کی صورت میں دیا۔ ولیم میور کی کتاب کےبعد
برصغیر کےہندوئوں نےبھی ‘ جو صدیوں سےمسلمانوں کےساتھی اور ہمسائےتھے‘ بداخلاقی کی
اس گندگی میں گلےگلےتک ڈوب کر پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخیاں کیں۔ پچھلی صدی کے
ابتدائی عشروں میں تو ایسا لگتا ہےکہ جیسےیہود و ہنود اور نصاریٰ کےسہ فریقی اتحاد
نےمسلمانوں کی دل آزاری کرنےاور انہیں اشتعال میں لا کر اخلاق و تہذیب کی حدوں
سےباہر نکالنےکا عمل بڑی شد و مد اور بڑےسوچےسمجھےمنصوبےکےساتھ جاری رکھا ہی۔ اس کے
پس پردہ محرکات اس کےسوا کچھ نظر نہیں آتےکہ ہر ایک کےلیےدنیا و آخرت میں حقیقی امن
و عافیت نجات اور مغفرت کےضامن اور انسانی وحدت اور ساری نسل انسانی کےساتھ پیار و
محبت کےعلمبردار اسلام کو پھلنےپھولنےسےروکا جائی۔ مسلمانوں کو مشتعل کرکےدنیا کو
یہ دکھانا بھی مقصود ہےکہ مسلمان بڑےفسادی ‘ جھگڑا لو اور امن دشمن یعنی ”دہشت گرد“
ہیں۔ ان طاقتوں کو خوف لاحق ہےکہ اگر پوری دنیا تک اسلام کا حقیقی تعارف ‘ قرآن کا
لافانی پیغام اور نبی کریمکی آفاقی تعلیمات پہنچ گئیں تو انسانیت کو ظلم اور تاریکی
سےنجات مل جائےگی اور یہود و ہنود و نصاریٰ کی ٹھیکیداری ختم ہو جائےگی۔ اس لیےکہ
اسلام تو ایمان اور اعمال کےنتائج کو نجات و مغفرت اور امن و عافیت کا ضامن قرار
دیتا ہی۔ اس کا تصور ”دورہ عشق فلاں ابن فلاں تیزےنیست ہی۔“ یعنی اسلام کی راہ میں
نسل ‘ علاقائیت ‘ لسانیت ‘ بےمعنی چیزیں ہیں۔ وہ سارےبنی آدم کی جان و مال ‘ عزت و
آبرو کا محافظ ہےاور انہیں عزت نفس کا مکمل حصار مہیا کرتا ہےیہی اس کےفروغ کی اصل
وجہ ہے۔ ماضی میں جس طاقت کو بھی مسلمانوں سےواسطہ پڑا وہ فقط مسلمانوں کی اعلیٰ
اخلاقی قوت سےپسپا ہوئی۔
|