|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
مسلمانوں کو ناقابل تسخیر بننا ہوگا
بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہےکہ ہم نہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات برکات اور اس کےآخری نبی حضرت محمد پر سچےدل سےایمان رکھتےہیں بلکہ اس سےپہلےگزرےہوئےتمام نبیوں‘ روز قیامت اور تمام فرشتوں پر بھی کامل ایمان رکھتےہیں۔ ہم جہاں نبی کریم کی عظمت و حرمت اور ان کےعطاکردہ دین کی سربلندی کےلیےجانیں نثار کرنا جانتےہیں وہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کی شان انبیاءکا بھی خلوص دل سےاقرار کرتےہیں۔ ہمارا شمار ان بدخصلت امتوں اور افراد میں نہیں ہوتا جنہوں نےاپنےہی نبیوں پر ایمان لانےکی بجائےانہیں نہ صرف اذیتیں پہنچائیں بلکہ انہیں جان سےمارنےسےبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کرم تھا کہ اس نےاپنےنبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی کےپھندےپر لٹکنےسےپہلےہی
آسمان پر اٹھا لیا وگرنہ یہودیوں اور عیسائیوں سےیہ عبث نہیں تھا کہ وہ انہیں صلیب پر لٹکا دیتے۔ حیرت کی بات تو یہ ہےکہ راہ راست سےبھٹکےہوئےیہ لوگ جو اپنےنبیوں کو مختلف حیلےبہانوں سےاذیتیں پہنچاتےرہےجب انہیں مکہ معظمہ میں نبی
آخرالزمان کی ولادت باسعادت کی خبر پہنچی تو وہ ان کی بھی جان کےدشمن ہوگئی۔ انہوں نے حتی المقدور کوششیں کیں کہ
آپ کو کسی نہ کسی طرح پہلےنبیوں کی طرح نقصان پہنچائیں لیکن جس کی حفاظت خود اللہ تعالیٰ کی ذات کرنےوالی ہو اسےکون نقصان پہنچا سکتا ہی۔ یہ واقعہ بھی اب تک ہمارےذہنوں میں تازہ ہےجب خیبر کا قلعہ فتح کرنےکےبعد نبی کریم مدینہ منورہ واپس تشریف لائےتو ایک یہودن زینب بنت حارث نےآپکو دانستہ زہرملا بھناہوا گوشت کھانےکےلیےلا کر دیا۔
آپ نےجونہی اس گوشت سےایک لقمہ اٹھا کر منہ میں رکھا تو ارشاد فرمایا کہ اس طعام سےہاتھ روک لو کیونکہ یہ گوشت مجھےکہتاہےکہ میں زہر
آلود ہوں پھر اس یہودن کا کیا انجام ہوا ۔اس کا ذکر تو تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہےلیکن کہنےکا مقصد یہ ہےکہ یہودیوں کےساتھ ساتھ عیسائیوں نےبھی نبی کریم اور ان کی امت کو نقصان پہنچانےکا کوئی موقع ہاتھ سےنہیں جانےدیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب عیسائیوں نےبا امر مجبوری شہر بیت المقدس کی چابیاں حضرت عمر کےسپرد کیں تواس وقت جو شرائط پیش کیں ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ بیت المقدس میں یہودیوں کو
آباد ہونےکی اجازت نہ دی جائی۔ حضرت عمر کا دور
آج بھی دنیا میں حق و انصاف کےاعتبار سےمثالی اور قابل تقلید تصور کیا جاتا ہےانہوں نےکسی یہودی یا عیسائی کو ناجائز تنگ نہیں کیا لیکن جونہی عسکری اقتصادی طور پر مسلمان کمزور ہوئےعیسائیوں نےایک بار پھر بیت المقدس پر یلغار کرکےقبضہ کر لیا اور پھر درندگی‘ وحشت اور ظلم و استبداد کےوہ مظاہر دیکھنےمیں
آئےکہ تاریخ عالم کےاوراق
آج بھی خون آلود دکھائی دیتےہیں۔ عیسائیوں کےگھوڑےمسجد عمر میں گھٹنوں تک مسلمانوں کےخون میں ڈوبےہوئےتھی۔ صرف مسجد اقصیٰ اور محراب دائود میں مسلمان شہدا کی تعداد 70 ہزار تھی اس واقعےکی طرف اشارہ کرتےہوئےحضرت شیخ سعدی شیرازی فرماتےہیں کہ جو عیسائی‘ بیت المقدس میں قتل و غارت کےلیےداخل ہوئےانہیں انسان کہنابھی انسانیت کی توہین ہی۔ ان حشر سامانیوں کےباوجود جب اسلام کےعظیم مجاہد سلطان صلاح الدین ایوبی نےعیسائیوں کو عبرت ناک شکست دےکر بیت المقدس ان سےچھین لیا تو اس وقت عیسائی اپنےسابقہ مظالم کو دیکھتےہوئےاپنےانجام سےسخت خوف زدہ تھی۔انہیں اس بات کا احساس تھا کہ جس طرح انہوں نےلاکھوں مسلمانوں کا اس مقدس سرزمین پر ناحق خون بہایا تھا اب اس کا حساب دینےکا وقت
آگیا ہےلیکن سلطان صلاح الدین ایوبی نےعیسائیوں کےظلم و استبداد اور درندگی کا جواب فہم و فراست اور صلہ رحمی سےدیا اور ان کےساتھ دانستہ کوئی زیادتی نہیں ہونےدی۔
صدیوں پر پھیلی ہوئی اس تاریخ نےبیسویں صدی میں ایک بار پھر انگڑائی لی۔
|