|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
مسلمانوں کو ناقابل تسخیر بننا ہوگا
یہاں یہ ذکر کرتاچلوںکہ اس وقت یورپ اور امریکہ کی سٹاک مارکیٹوں میں عربوں کےجو کھربوں ڈالر موجود ہیں اگر یہ وہاں سےنکال لیےجائیں تو یورپ اور امریکہ کی سٹاک مارکیٹنگ خود بخود کرایش ہوجائیں گی اور وہاں بیٹھ کر مسلمانوں پر رعب جمانےوالےعیسائی اور یہودیوں کی عقل ٹھکانےآجائے گی۔
عربوں کو جھانسہ دےکر ماضی میں یہ کہہ کر انہیں یورپ اور امریکہ میں بڑی بڑی جائیدادیں ‘ شاپنگ پلازےاور ڈیپارٹمنٹل سٹور خریدنےکی ترغیب دی گئی کہ وہاں سرمایہ کاری سےان کےمالی ذخائر میں حددرجہ اضافہ ہوجائےگا۔ چنانچہ عربوں نےاپنےسرمایےکو بڑھانےاور محفوظ بنانےکےلیےیورپ میں دھڑا دھڑا زمینیں ‘ شاپنگ پلازےاور جائیدادیں خرید لیں اس ضمن میں صرف پیرس کی مثال کافی ہے۔ پیرس کی ایک سڑک شانزے لیزےدنیا کی مہنگی ترین شاہراہ ہی۔ یہ سڑک بنیادی طور پر ایک کھلا بازار ہےجس کےدونوں جانب بڑی بڑی دکانیں اور شاپنگ سنٹر ہیں۔ اس وقت اس سڑک کی نوےفی صد عمارتیں عربوں کی ملکیت ہیں اس کےعلاوہ صرف پیرس کےمضافات میں ہزاروں ایکڑ اراضی پر عربوں کےمحلات اور فارم موجود ہیں۔ اسی دور میں یورپ میں جوئےخانوں‘ شراب خانوں‘ ہوٹلوں‘ ریستورانوں اور ڈسکوکلبوں کا سلسلہ شروع ہوا تو اس کاروبار میں بھی سرمایہ کاری کےحوالےسےعربوں کی حوصلہ افزائی کی گئی چنانچہ صرف برطانیہ میں اس غلیظ کاروبار میں عربوں کا حصہ 73 فی صد ہےایک اندازےکےمطابق امریکہ میں عربوں کی سرمایہ کاری تین کھرب ڈالر سےزیادہ ہےصرف عرب کےشاہی خاندان کےایک کھرب یعنی ایک ہزار ارب ڈالر امریکہ میں پھنسےہوئےہیں جو 9/11کےبعد امریکہ نےیہ کہہ کر واپس کرنےسےانکار کر دیا تھا کہ یہ سرمایہ امریکہ سےواپس نہیں لےجایا جاسکتا۔ عربوں کی دولت لوٹنےکا ایک حربہ یہ بھی
آزمایا گیا کہ عرب سرزمین پر موجود تیل کےوسیع ذخائر اور ان کےحقوق امریکی اور یورپی تیل کمپنیوں کےسپرد کر دیئےگئےتاکہ اگر عرب بغاوت کریں بھی تو ان کا دماغ
آسانی سےٹھکانےلگایا جاسکی۔
میری رائےمیں اگر یہ سارا سرمایہ جو مسلمانوں بالخصوص عربوں نےامریکہ فرانس ‘جرمنی‘ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں لگا رکھا ہےوہاں سےنکال کر مسلم ممالک میں انویسٹ کیاجائےتو ایک جانب امریکہ سمیت دیگر یورپی ممالک اقتصادی اعتبار سےبدحال ہوں گےتو دوسری طرف انہیں مسلمانوں کی اہمیت کا بھی بخوبی اندازہ ہوجائےگا۔
اسےبدقسمتی ہی قرار دیا جاسکتا ہےکہ دفاعی اعتبار سےکسی بھی عرب ملک کی فوج اس قابل نہیں ہےکہ وہ کسی یورپی ملک سےتو کجا اسرائیل سےہی جنگ لڑ سکے۔ عراق میں جو تھوڑا بہت دم خم تھا صدام کی رخصتی کےبعد وہ بھی ختم ہوچکا ہی۔ مصر تو ویسےہی امریکہ اور یورپ کی غلامی قبول کر چکا ہی۔ سعودی عرب تیل کےکنووں سمیت اپنا دفاع امریکہ کےحوالےکر چکا ہےقطر میں امریکی فوج کےسب سےبڑےاڈےموجود ہیں ‘ترکی اور مصر کسی حد تک دفاعی اعتبار سےبہتر پوزیشن میں تھےلیکن یورپی یونین میں شمولیت کا شوق ترکی کےاسلامی تشخص اور خودداری کو پامال کر چکا ہےجبکہ مصر کےبارےمیں یہی کہا جاتا ہےکہ وہ نام کا اسلامی ملک ہےامریکہ مصر کو عدم استحکام سےاس شرط پر بچائےہوئےہےکہ وہاں کی حکومت اپنےملک میں اسلام پسندوں کو سر نہ اٹھانےدی۔ یہی وجہ ہےکہ ذاتی اقتدار کو قائم و دائم رکھنےکےلیےمصری حکمران فلسطینوں کی بجائےاسرائیل سےدوستی کا زیادہ دم بھرتےہیں ان حالات میں جبکہ ہم امریکہ اور یورپی ممالک کےسامنےہاتھ جوڑ کرکھڑےہیں کچھ کو امریکہ نےعسکری طور پر تسخیر کر رکھا ہےاور کچھ کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں ورلڈ بنک اور
آئی ایم ایف کےذریعےمعاشی زنجیروں میں جکڑ لیاگیا ہی۔
ان حالات میں یہ کیسےممکن ہےکہ ہم یورپ یا امریکہ میں نبی کریم کی توہین کرنےوالوں کےسرتن سےجدا کر سکیں۔ خدانخواستہ اگر یہی جسارت کسی مسلمان نےعیسائیوں اور یہودیوں کےخلاف کی ہوتی تو اپنےہی مسلمان حکمران اسےکب کےامریکہ اور یورپی ممالک کےحوالےکر چکےہوتی۔ ایمل کانسی سمیت کئی افراد کےنام اس ضمن میں گنوائےجاسکتےہیں جن کو اپنےہی ملک میں ہونےکےباوجود امریکی اٹھا کر لےگئےاور اب وہ امریکی قید میں سزا کاٹ رہےہیں۔ مسلم حکمرانوں کو اس سےکوئی غرض نہیں کہ امریکہ ان سےجو چاہےسلوک کری۔
اس واقعےکےتناظر میں اس امریکی قانون پر بھی بات ہوجائےجس کےتحت حکومت امریکہ
کواختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنےمفادات کو خطرےمیں محسوس کرکےجب چاہےاور جس ملک پر
چاہےفوجی کاروائی کر سکتا ہےابھی اس قانون پر تیسری دنیا میں بحث و تمحیص جاری تھی
جو سراسر زیادتی کےمترادف تھا کہ فرانس کےصدر شیراک اس پر بھی بازی لےگئی۔
|