|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
توہین رسالت اور ایک ”کرائم منسٹر“
کےبلیو آئیڈ بوائز
یہ قصہ ہےلبرل ماڈریٹ اور امریکنائزڈ پاکستانی وزیراعظم بےنظیر کےدوسرےعہد اقتدار کا۔ سب جانتےہیں کہ بےنظیر کا تکیہ کلام ہمیشہ یہ رہا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ وہ اٹھتے بیٹھتے‘ چلتےپھرتےاور سوتےجاگتےہمیشہ یہی گردان کرتی رہیں۔ اس تکیہ کلام اور گردان کو بعد میں انہوں نےاپنا دعویٰ اور موروثی انتخابی منشور بنا لیا۔ اب جب انہیں اقتدار کےایوان میں داخل ہونےکا موقع ملا‘ اپنےکردار ‘ اعمال اور رویوں سےانہوں نےاپنےاس دعویٰ کی بیچ چوراہےمیں تردید کرنےسےبھی دریغ نہ کیا ۔ دوسری مرتبہ وہ 19اکتوبر 1993ء کو ایوان اقتدار میں داخل ہوئیں۔ سادہ لوح عوام اور بھولےبھالےجیالوں کا یہ خیال تھا کہ اپنےتکیہ کلام ‘ دعوےاور انتخابی منشور کو عملی جامہ پہنانےکےلیےان کےجذبات کا احترام کریں گی۔ سادہ لوح عام اور بھولےبھالےجیالوں کو کیا معلوم تھا کہ 19اکتوبر1993ءکےبعد انہوں نےاپنےانتخابی منشور کو اٹھاکر سرد خانےمیں پھینک دیا تھا۔ اب ان کےنزدیک طاقت کا اصل سرچشمہ عام نہیں بلکہ وائٹ ہائوس‘ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگون ہی کےآقا یان سفید فام تھی۔ سو اپنےدوسرےعہد اقتدار کے3 سال 16دن تک وہ اسلام
آباد کےپی ایم ہائوس کی پولو گرائونڈ میں صرف ایک ہی کھیل کی ”نیٹ پریکٹس “ اور ”ہوم ورک “ کرتی رہیں کہ دنیا انہیں امریکی عوام اور امریکی صدر سےبھی زیادہ امریکہ کی وفادار تسلیم کرلی۔ امریکی حکام نےتوہین رسالت کےدو سزا یافتہ مجرموں کی رہائی کو ان کےلیےایک ٹیسٹ کیس بنا دیا۔ اب رحمت مسیح اور سلامت مسیح جو توہین رسالت کےجرم میں سیشن کورٹ کےفیصلہ کےمطابق کوٹ لکھپت جیل میں سزائےموت کاٹ رہےتھی‘ ان کےیکدم محبوب نظر بن گئی۔ انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ اگر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکےامریکہ بہادر کےان بلیو
آئیڈ بوائز کو وہ اگلےعدالتی مراحل میں رہا کرانےمیں کامیاب ہوگئیں توان کےاقتدار کو
آ ب حیات پلا کر دوام بخش دیا جائےگا۔ بی بی امریکیوں کےبہکاوےمیں
آگئی۔ بیچاری یہ بھول گئی کہ امریکی کام نکال لینےکےبعد تیسری دنیا کےاپنےپسندیدہ ترین حکمرانوں کو ایوان اقتدار سےاٹھا کر یوں نکال باہر پھینکوا دیتےہیں جیسےکوئی نفیس الطبع شخص ٹشو پیپر سےپیشانی کی گرد صاف کرنےکےبعد اسےڈسٹ بن میں پھینک دیتا ہی۔ ساون کےاندھوں کو ہر اہی ہرا اور ماڈریٹ لبرل اور پروگریسو بننےکےجنون میں مبتلا حکمرانوں کو امریکا ہی امریکا دکھائی دیتا ہی۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کےڈکٹیٹرز“ نےڈکٹیشن دی اور تابع اصل وزیراعظم نےحرف بہ حرف اس کو عملی جامہ پہنایا۔
11 فروری 1995ءکو سلامت مسیح اوررحمت مسیح کےخلاف مقدمےمیں ایڈیشنل سیشن جج
محمد مجاہد حسین کا فیصلہ جب سامنےآیا تو اس پر پرائم منسٹر آف پاکستان بےنظیر بھٹو
جنہیں ان دنوں عام پاکستانی شہری کرائم منسٹر آف پاکستان کےالفاظ سے یاد کیا کرتا
تھا اپنےکریمینل ردعمل کا اظہار ان الفاظ میں کیا ‘ ”توہین رسالت کےمجرموں کو سزا
دینےکےفیصلےپر مجھےحیرت بھی ہوئی اور دکھ بھی ‘ میں اس فیصلےپر ذاتی طور پر ناخوش
ہوں۔ پاکستان بچوں سےمتعلق سنگین سزائوں خصوصاً موت کےخلاف اقوام متحدہ کےچارٹر پر
دستخط کر چکا ہی‘ یہ امر باعث حیرت ہےکہ 14سال کےبچےکو سزائےموت دیتےہوئےاس چارٹر
کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا۔ عادت آزاد تھی ‘ دونوں ملزموں کےوکیلوں کو پورا موقعہ
ملا تھا۔ انہیں چاہیےتھا کہ اس چارٹر کا حوالہ دیتی۔ یہ فیصلہ ایسےوقت ہوا جب اقوام
متحدہ کےسلسلےمیں ریکارڈ بہت اچھا رہا ہی۔ یہ فیصلہ بہت غلط موقعہ پر ہوا ہی۔ میں
توہین رسالت کےقانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہوں ۔“ اب آپ ہی سوچئے‘ غور کیجیے¿ اور
اس کےبعد خدا لگتی کہیےکہ کیا وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سےپاکستان کی پرائم منسٹر
نےیہ بیان دےکر اپنےکرائم منسٹر ہونےکا عملی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ کیا عدالت
کےفیصلےپر بحیثیت وزیراعظم ان کا یہ تبصرہ ضروری تھا؟
|