|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
محبت
لیبیا کےایک مسلمان نےکہا:
”میں عیسائی بھی ہوں اور مسلمان بھی۔ مجھےپیغمبرمحمد کی شان میں گستاخی کا اتنا ہی دکھ ہوا ہے‘ جتنا جیززکرائسٹ کی شان میں توہین کا رنج ہوتا۔“
جدہ میں برسوں سےمقیم ایک ہندو کی کسی وجہ سےملازمت جاتی رہی اور اسےانڈیا واپس جانا پڑا۔ روانگی کےوقت اس کی
آنکھیں اشکبار تھیں۔ رونےکی وجہ پوچھی تو بولا: ”مجھےملازمت کےچھن جانےکا اس قدر افسوس نہیں جتنا دکھ مجھےیہ شہر کےچھوڑنےکا ہی۔ اس شہر اور یہاں کے مکینوں کی محبت میں اپنا وطن اور دھرم بھی بھول گیا تھا۔“
مسلم ممالک میں
آباد غیر مسلمین مسلمان بھائیوں سےمحبت کرتےہیں۔ اسلام پسند ہوتےہیں۔ ان کا رہن سہن ‘ زبان ‘ غذا و لباس‘ میل ملاپ‘ سب مسلمانوں جیسا ہوجاتا ہی۔ پاکستانی عیسائیوں کےتو نام بھی مسلمانوں جیسےہیں۔ اہل مغرب نےمسلمانوں کےخلاف نفرت کی جو
آگ بھڑکا رکھی ہےاس میں خود ہی جل کر راکھ ہوجائیں گی۔
گیارہ ستمبر سےپہلےامریکہ میں اس نفرت کا کوئی وجود نہ تھا۔ بھارت میں بسنےوالےمسلمانوں اور ہندوئوں کےدرمیان بھی نفرت کا سبب یہی گورا تھا۔ امریکہ کا باشعور طبقہ بھی مذاہب کی توہین کی مذمت کرتا ہی۔ امریکی کالم نگار پیٹرک بچیئنن لکھتا ہےکہ:
What was the purpose of the juvenile idiocyby the Europresss, the freedom to insult the faith of a billion people and start a religious war?
مزید لکھتا ہی:
” بش حکومت نےتوہین
آمیز خاکوں کی مذمت کےچند گھنٹوں بعد ڈنمارک کےساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کرکےمنافقت سےکام لیا ہی۔ جرمن قوم بھی اسلام کی توہین کےلیےفراخ دل ہےمگر جب ہٹلر اور Holoaustکی بات
آتی ہےتو یہ قوم سیخ پا ہوجاتی ہی۔ یورپ اورامریکہ نےپادریوں کےتوہین
آمیز بیانات اور سلمان رشدی کی تصنیف کےردعمل میں مسلمانوں میں جنم لینےوالےغم و غصہ سےبھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ محمد کےتوہین
آمیز کارٹون کی اشاعت سےیورپ نےمذہبی جنگ کو دعوت دی ہی۔ اس احمقانہ فعل سےاہل مغرب نہ صرف دنیا اسلام میں غیر محفوظ ہو گئےہیں بلکہ عراق میں غیر مسلم فوجیوںکی موت کےبھی ذمہ دار ہیں۔“
اسلام دشمن اہل کتاب کےبارےمیں اللہ تعالیٰ فرماتےہیں :
”اہل کتاب میں سےاور ان کافروں کو جنہوں نےتمہارےدین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے‘ دوست نہ بنائو۔ جب تم نماز کےلیےاذان دیتےہو تو یہ اسےبھی ہنسی مذاق بناتےہیں ۔“ (المائدہ)
عیسیٰ سےمحبت اور توہین محمد کےمرتکب عیسائیت کےلیےبدنما داغ ہیں۔ ”ویلٹائن ڈی“ منانےوالےاہل مغرب محبت کی حقیقی خوشبو سےمحروم ہیں۔ محبت کی ابتدا بھی ایمان ہےاور انتہا بھی ایمان ۔ محبت کرنےوالےکو جب تک اپنےجذبات‘ کیفیات اور محسوسات پر ایمان نہ ہو ‘ اس کی محبت دعویٰ کےسوا کچھ نہیں۔ محبت
آسیہ کا ایمان ہی۔
آسیہ نےاپنا ایمان اپنےشوہر فرعون سےچھپایا ہوا تھا۔
فرعون کو علم ہوا تو
آسیہ کو دھوپ میں عذاب دیا جاتا تھا۔ ان کےجسم پر میخیں گڑوائیں جاتیں اور ان کےسینہ پر چکی کےپاٹ رکھوا دیئےجاتےاور فرعون کہتا‘ اب بھی وقت ہےاپنا عقیدہ چھوڑ دی۔
آسیہ جواب دیتیں‘ تم میرےوجود پر قادر ہو لیکن میرا دل میرےرب کی پناہ میں ہی۔“
محبت ‘ میں ‘ نہیں ”تو “ ہی۔ محبت زندگی ہی۔ محبت بندگی ہی۔ محبت ممتا ہی۔ محبت
کمال ہی۔ جان ہی۔ جمال ہی۔ محبت بہار ہی۔
|