|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
پرتشدد احتجاج کےاقتصادی مضمرات
ناروےاور ڈنمارک کےاخبارات میں رسول اکرم سےمتعلق توہین
آمیز خاکوں کی اشاعت کےبعد پاکستان میں بھی بڑےپیمانےپر احتجاج جاری ہی۔ خاکوں کی اشاعت پر احتجاج فطری امر تھا۔ کیونکہ اس پاکستانی مسلمانوں کےجذبات بھی مجروح ہوئےہیں۔ ان کی جانب سےاحتجاج ناگزیر تھا۔ اس احتجاج کےنتیجےمیں کئی شہروں میں پرتشدد واقعات بھی ہوئی۔ جن میں جانی ومالی نقصان ہوا ہی۔ بہت سےیورپی ممالک سےسیاسی اور سفارتی تعلقات ختم کرنےپر بھی زور دیا جا رہا ہی۔ یہ مطالبہ اپوزیشن کی جانب سےکیا جا رہا ہےاور اسےعلماءاور دینی مدارس کےطلباءکی حمایت بھی حاصل ہی۔
آج کی دنیا میں سیاست اور معیشت ایک دوسرےسےمنسلک ہیں۔ کوئی بھی سیاسی فیصلہ معاشی صورتحال کو تبدیل کر دیتا ہےاورمعاشی اقدامات سےسیاسی صورتحال تبدیل ہو جاتی ہی۔اس لیےسیاسی فیصلوں کیلئےاب پرامن مذاکرات اور پرامن احتجاج کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہی۔ مشرقی اور مغربی جرمنی کا انضمام اور ہانگ کانگ کاچین کو واپس ملنا اس سلسلےمیں دو انتہائی واضح مثالیں ہیں۔
پاکستان کو انتہائی نازک صورتحال کا سامنا ہی۔ ایک طرف مذہبی اور سیاسی لیڈر حکومت پر دبائو ڈال رہےہیں کہ وہ متعلقہ یورپی ممالک سےاپنےسفیر بلا لےیعنی سیاسی تعلقات منقطع کر لی۔ دوسری طرف پاکستان کےان ممالک سےنہایت اہم معاشی تعلقات ہیں۔ابتداءمیں تاجروں اور صنعتکاروں نےبھی خاکوں کی اشاعت پر ہونےوالےاحتجاج میں بھرپور حصہ لیتےہوئےاحتجاجی بینرز
آویزاں کر دیئےتھےاو ران ممالک کی اشیاءکےبائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کےعلاوہ ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ یورپی ممالک کی اشیاءکی درآمد بند کی جائےلیکن انہیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ اس کےنتیجےمیں یورپی ممالک سےمالی امداد اور تکنیکی مہارت
آنا بند ہو جائےگی اور یہ ممالک بھی پاکستان سےاشیاءدرآمد کرنا بند کر دیں گی۔ اس لیےمطالبہ کی شدت اب کم رہ گئی ہی۔ ممکن ہےکہ کچھ دنوں میں تاجروں اور صنعتکاروں کی جانب سےاحتجاجی طبقےکی پشت پناہی کا سلسلہ بھی منقطع ہو جائی۔ یورپی ممالک کیلئےپاکستانی برآمدات کم وبیش چار ارب ڈالر کی ہیں۔ اگر پاکستان نےیورپ کو اپنی برآمدات روکیں تو فوری طور پر بھارت اور چین صورتحال کا فائدہ اٹھاتےہوئےبرآمدات بڑھا دیں گی۔ پاکستان کو عالمی منڈی میں پہلےہی غیرمعمولی مسابقت کا سامنا ہی۔ ایسےمیں برآمدات روکےجانےکی صورت میں بہت سےکارخانوں کی پیداوارمیں کمی واقع ہو گی اور ہزاروں افراد بےروزگار ہو جائیں گی۔
8اکتوبر کےزلزلےکےبعد صوبہ سرحد او رآزادکشمیر میں بحالی اور تعمیرنو کےسلسلےمیں یورپی ممالک کی ٹیموں نےبڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا تھا اور بہت سی غیرسرکاری تنظیموں کاکام اب بھی جاری ہی۔ حالیہ احتجاج کےبعد کئی تنظیموں نےاپنا کام روک دیا ہی۔ یورپی یونین کی جانب سےمالی امداد کا وعدہ بھی کیا گیا تھا جس دن کراچی میں احتجاجی ریلی نکالی جا رہی تھی‘ اسی دن ڈزاسٹرپریپیئر ڈینس پروگرام EHO کےتحت یورپی یونین (انسانی ہمدردی امداد) نے60لاکھ یورو کا عطیہ دینےکا اعلان کیا تھا۔ یہ امداد بھارت‘ بنگلہ دیش اور پاکستان کو ملےگی۔
پاکستان ڈیوپلمنٹ فورم کی تشکیل کےبعد یورپی یونین کی جانب سےامداد چارگنا بڑھ چکی ہےجو تعلیم اور ترقیاتی کاموں پر خرچ کی جائےگی۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان کےکم ترقی یافتہ علاقوں کو اس امداد کا زیادہ حصہ ملےگا۔
احتجاج میں نہ صرف مذہبی رہنما اور سیاسی لیڈر شامل ہیں بلکہ 11فروری کو مذہبی
امو رکےوفاقی وزیر اعجازالحق نےبھی کہا کہ یورپی ممالک کی اشیاءکا بائیکاٹ اس وقت
تک جاری رکھا جائےگا جب تک خاکےشائع کرنےوالےمعافی نہ مانگ لیں۔
|