|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
پرتشدد احتجاج کےاقتصادی مضمرات
ادھر پشاور اور لاہور میں پرتشدد واقعات کےبعد اب کارواری طبقہ سمجھ نہیں پا رہا کہ کس کا ساتھ دی۔ تاجروں اور صنعتکاروں کو ڈر ہےکہ کہیں چار ارب ڈالر کی مارکیٹ ہاتھ سےنہ نکل جائی۔ دوسری طرف سیاسی نظام کمزور ہوتا جا رہا ہےاگر حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی یا حکومت میں بڑےپیمانےپر تبدیلیاں رونما ہوئیں تو سیاسی اور معاشی دونوں طرح کی پالیسیاں بھی تبدیل ہو جائیں گی۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نےبھی اس صورتحال سےفائدہ اٹھاتےہوئےچند ایک تبدیلیوں کا عندیہ دیا ہی۔ تاجر برادری کو یہ شکایت ہےکہ اسلام
آباد میں وزارت خارجہ اور کوپن ہیگن میں پاکستانی سفارت خانےنےاسلامی ممالک کےساتھ مل کر اس مسئلےکو اجتماعی طور پر نہیں اٹھایا اور نہ ہی فوری طورپر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اگر یہ ادارےیورپی یونین کو احساس دلاتےکہ خاکوں کی اشاعت غلط ہےاور اس سےمسلمانوں کےجذبات مجروح ہوئےہیں تو معاملہ اس حد تک خراب نہ ہوتا۔ ڈینش وزیراعظم نےپاکستانی ہم منصب کو ٹیلی فون کر کےمعافی مانگی‘ مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور معاملہ حکومتی ایوانوں سےنکل کر سڑکوں تک
آ چکا تھا۔
اب ضرورت اس امر کی ہےکہ حکومت عوام کو یہ بتائےکہ سڑکوں پر احتجاج کرنا جمہوری حق ہےمگر ساتھ ہی ساتھ پرامن رہنا ملکی مفاد میں ہی‘ کیونکہ بہت سےغیرمسلم ممالک موقع کی تلاش میں ہیں کہ ان پرتشدد مظاہروں کو بنیاد بنا کر مسلمانوں پر اپنی زمین تنگ کر دیں اور ساتھ ہی مختلف امتیازی قوانین کا سہارا لےکر مسلم ممالک سےتجارت پر پابندی بھی عائد کر دیں۔ پرتشدد مظاہروں اور توڑپھوڑ سےملکی صنعت کا بھی بیڑا غرق ہوتا ہی۔ لاہور کےایک دن کےہنگاموں اور احتجاج سےدس کروڑ روپےکا نقصان ہوا۔ کراچی میں تو چار دن کام بند رہا اور سارےملک میں ہڑتالیں اور توڑپھوڑ ہوئی جو اپنےہی لوگوں کیلئےنقصان کا باعث بنی اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی ختم ہو گیا۔
25 مالک پر مشتمل یورپی یونین کےساتھ (جس میں ڈنمارک‘ ناروےاور اٹلی شامل ہیں) پاکستان کےبہت اچھےتعلقات ہیں اور ان ممالک کو ہماری 35 فیصد برآمدات جاتی ہیں۔ 2004-05ءمیں پاکستان کی برآمدات 12 ارب ڈالر تھیں جن میں سے4 ارب ڈالر صرف یورپی یونین کیلئےتھیں۔ ان برآمدات میں تین ارب کا حصہ ٹیکسٹائلز کا تھا۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری پاکستان میں روزگار کی فراہمی کا سب سےبڑا ذریعہ ہےاگر یہ شعبہ متاثر ہوا اور اس کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی تو ہزاروں افراد بےروزگار ہو جائیں گی۔ اس شعبےکو چلانےوالی مشینری اور بہت سےکیمیکلز بھی یورپی ممالک سےہی
آتےہیں۔ متعدد یورپی ممالک سےپاکستان کو غیرمعمولی مالی وتعلیمی امداد بھی ملتی ہی۔
2000-2003 میں 25 یورپی ممالک کےساتھ پاکستان کی برآمدات 3ارب 15کروڑ ڈالر جبکہ درآمدات 2 ارب 13کروڑ ڈالر تھیں۔ 2003-04ءمیں برآمدات میں 57کروڑ 90لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا اور یہ 3 ارب 73کروڑ ڈالر ہو گئیں۔
یورپی ممالک کی عالمی تجارت 8072.35 ارب ڈالر ہی۔ عالمی معیشت میں بھی اب بھی یورپ بہت طاقتور ہےاور اس طاقتور بلاک سےکوئی بھی معاملہ طےکرتےوقت اور کوئی بھی قدم اٹھاتےوقت غیرمعمولی احتیاط کی سخت ضرورت ہی۔ تین ممالک کی غلطی کو بنیاد پر ایک مضبوط معاشی بلاک سےتعلقات خراب کر کےمعاشی ترقی کو دائو پر لگانا دانش مندی نہیں۔ ایک ملک نےمعافی مانگ لی ہی۔ ایک ملک کےوزیر سےاستعفیٰ طلب کر لیا گیا ہی۔ ہمارا معاملہ ڈنمارک‘ ناروےاور اٹلی سےخراب ہوا ہی‘ مگر اس بنیاد پر 25ممالک سےتعلقات خراب کرنا دانشمندی نہیں۔ مستقبل میں امریکی اجارہ داری صرف یورپی یونین ہی ختم کر سکتی ہی۔ اس کی بہت بڑی منڈی ہےاور بڑےپیمانےپر اشیاءبرآمد کی جا سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں ڈالر کےاتارچڑھائو سےبہت سےممالک کی معیشت کو دائو پر لگنےسےاور مالیاتی منڈیوں کو برباد ہونےسےبھی یورپی یونین کی کرنسی یورو ہی روک پائےگی۔ ماہرین کےمطابق 20سال میں ڈالر کی جگہ یورو لےلےگا۔ اس وقت دنیا کےمرکزی بینک زرمبادلہ کے66فیصد ذخائر ڈالر کی شکل میں رکھتےہیں‘ لیکن ڈالر کی گرتی ہوئی قدر‘ افراط زر اور امریکی تجارتی خسارےمیں اضافےسےڈالر میں اعتبار متزلزل ہو رہا ہےجب یورپی یونین کےتمام ارکان یور وکو اپنی کرنسی بنا لیں گےتب ڈالر کےبجائےیور وکی شکل میں زرمبادلہ کےذخائر رکھنےکو ترجیح دی جائےگی۔ 2022 تک بیشتر
بین الاقوامی ادائیگیاں بھی یورو کی شکل میں ہی کی جائیں گی۔ 2020 تک برطانیہ سمیت
تمام رکن ممالک یوروپین اکنامک اینڈ مانیٹری یونین میں شامل ہو چکےہوں گی۔
|