|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
شرانگیز مواد کی اشاعت
مذہب کےمعاملےمیں دنیا کی ہر قوم بہت زیادہ جذباتی اور حساس ہوتی ہےکیونکہ یہی ایک چیز ہےجو کسی قوم کو دنیا و مافیہا کی خواہشات سےآزاد کرتی ہی۔ جب سےایک کےبعد ایک اخبار نےپیغمبر اسلام حضرت محمد کےبارےمیں توہین
آمیز مواد کی اشاعت کو
آزادی¿ اظہار کا منبع قرار دیاتو یورپی دنیا کےمسلمان سراپا احتجاج ہوئے اور دنیا بری طرح منقسم ہوتی نظر
آئی۔ مسلم ممالک میں مغربی اخبارات اور مصنوعات کےخلاف شدید غم و غصہ پایا گیا مگر مغرب کےکانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
اس سازش کی کڑیاں اگست 2005ءسےملتی ہیں جب ڈنمارک کےایک اخبار نےاس سلسلےمیں کارٹون بنانے کےلیےمختلف کارٹونسٹوں سےدرخواستیں طلب کیں۔ 40منتخب کارٹونسٹ میں سےصرف 12کارٹونسٹ یہ گستاخانہ جسارت کرنےپر رضامند ہوئی۔ اشاعت کا
آغاز 30ستمبر کو ڈنمارک کےاخبار ”یولاندیوسٹن“ سےہوا۔ اخبار نےیہ کارٹونز شائع کرنےکا منصوبہ ’کرےبلوٹگن“ کی وجہ سےبنایا جو
آنحضورسےمتعلق بچوں کےلیےایک کتاب لکھنا چاہتا تھا اس میں نبی ان کی منفی تصویر کشی کرنا چاہتا تھا۔ اسےڈر تھا کہ اگر اس کی کتاب شائع ہوتی ہےتو مسلمان اسےقتل کر دیں گی۔ اخبار کےمالک اور ایڈیٹر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کا یہ احتجاج بین الاقوامی تنازعہ بن جائےگا اور لوگ ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا شروع کر دیں گی۔ یہ اندازہ ڈنمارک کےوزیراعظم کو بھی نہیں تھا کیونکہ جب ڈنمارک میں موجود اسلامی ممالک سےتعلق رکھنےوالےدس سفیروں نے20اکتوبر کو وزیراعظم سےملاقات کےلیےوقت مانگا تو انہوں نےملنےسےانکار کر دیا۔ رفتہ رفتہ دنیا میں احتجاج تقویت پکڑنےلگا۔ 10جنوری کو ناروےکےایک رسالے”میگزنیٹ نےانہیں دوبارہ پرنٹ کر دیا۔ سب سے پہلےاحتجاج کی
آوازیں کوپن ہیگن سےبلندہوئیں جب 3500 افراد نےنومبر کےدوسرےہفتےمیں اس حرکت کےخلاف مظاہرہ کیا۔ اس ماہ پاکستان میں بھی مزدوروں کی یونین نےاحتجاج کیا جس کےبعد کئی دوسری تنظیموں نے بھی ڈنمارک کی حکومت پر شدید تنقید کی۔
ڈنمارک کےفوجداری قوانین کا سیکشن 140کسی بھی شخص کو ایسےمواد کی اشاعت سےباز رکھتا ہےجس سےکسی دوسرےمذہب کےماننےوالوں کےجذبات مجروح ہوتےہوں جبکہ 266bایسےشخص یا افراد کےخلاف کارروائی پر بحث کرتا ہی۔ ڈنمارک کی پولیس نے27اکتوبر 2005ءکو اس معاملےکےخلاف تفتیش شروع کی مگر اسےکمزور کیس قرار دےکر داخل دفتر کر دیا۔ اخبار کےبارےمیں کچھ حلقوں کا یہ خیال بھی تھا کہ اسےسرکاری سرپرستی حاصل ہےاگرچہ یہ براہ راست حکومتی ملکیت میں نہیں ہی۔
29 جنوری کو ڈنمارک کےریڈیو براڈکاسٹنگ کےدوران 579 لوگوں کی فون کالز سنی گئیں اور اس بارےمیں لوگوں کی
آراءطلب کی گئیں تو حیران کن طور پر زیادہ تر ڈینش عوام نےاپنےمتعصب اور ہٹ دھرم ہونےکا ثبوت دیا۔ 19فی صد لوگوں نےوزیراعظم ڈنمارک کےمسلمانوں سےمعافی نہ مانگنےپر زور دیا۔ 37فی صد نےکہا کہ اس اخبار کے خلاف کارروائی
آزادی صحافت کےمنافی ہی۔ 44فی صد کا خیال تھا کہ وزیراعظم کو مسئلے کےحل کےلیےخصوصی کوششیں کرنی چاہیی۔62 فیصد نےاخبار کو بھی کہا کہ وہ معافی نہ مانگی۔38فی صد نےکہا کہ یہ اخبار کا حق ہےکہ وہ کارٹونز شائع کری۔
3فروری کو ریڈیو نےایک اور سروےکرایا جو بہت حد تک مختلف تھا۔509فون کالز میں
سے47فی صد نےکہا کہ یہ کارٹونز شائع نہیں ہونےچاہیےتھی۔ 44فی صد نےاس کی مخالفت میں
ووٹ دیا جبکہ 7فی صد نےاپنی رائےدینےسےگریز کیا۔
|