|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
اظہار کی آزادی یا شرانگیزی
توہین آمیز کارٹون کی اشاعت قطعی طور پر
آزادی¿ اظہار نہیں ہی۔ یہ انسانی اور اخلاقی اقدار و روایات اور دنیاوی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہی۔ ایسےکارٹون کی اشاعت کےخلاف دنیا بھر میں مسلمانوں کا ردعمل فطری بھی ہےاور غیرت و حمیت کا تقاضا بھی۔ جب کہ عالمی برادری پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہےکہ جس طرح وہ دنیا سےدہشت گردی کےخاتمےکےلیےمیدان میں نکلی ہوئی ہی‘ اسی طرح وہ دنیا کا امن خراب کرنےکی کوشش کرنےوالوں کےخلاف بھی باہر نکلےوگرنہ یہ بات ثابت ہوجائےگی کہ دنیا میں امن کی خواہش رکھنےاور امن قائم کرنےکےدعوےدار اور دہشت گردی کو ختم کرنےکی جدوجہد کرنےوالوں کےپاس دو معیار ہیں‘ ساتھ ہی یہ خدشات بڑھ جائیں گےکہ ایسےتوہین
آمیز کارٹون‘ تصاویز‘ مضامین تہذیبوںکےتصادم کا سبب بنیں گے‘ جو فسادات کی صورت اختیار کر سکتےہیں اور یہ خطرہ سب سےزیادہ ہےکہ
آئندہ ان فسادات کا میدان یورپ بنےگا جس کی ایک تازہ ترین مثال فرانس کےگزشتہ دنوں کےواقعات ہیں۔
آزادی¿ اظہار اور قوانین:
دنیا کا ایک مسلمہ اصول ہےجو کسی تحریری ضابطےکا محتاج نہیں ہےکہ
آزادی کی اپنی ”حدود و قیود “ ہوتی ہیں۔ یہ حدود و قیود انسانی معاشروں ‘ مذاہب ‘ تاریخ‘ ثقافت ‘زبان کےدائرےمیں
آتی ہیں۔ ایک تمدن اور تہذیب جس بات کو اپنےلیےاچھی تصور کرتی ہے‘ ضروری نہیں دوسری تہذیب و تمدن بھی اسےایسا ہی سمجھی۔ تاریخ کےاوراق اس صورت حال سےبھرےپڑےہیں۔ دور جدید میں جب دنیا سکڑ کر ایک دوسرےکےبہت قریب
آچکی ہےاور جس نےتہذیبوں‘ اقدار ‘ روایت ‘ زبان اور ثقافت میں بہت سی ”اقدار مشترک “ تلاش کر لی ہےاور
آپس میں طےکر لیا ہےکہ ان اقدار مشترک کا نہ صرف احترام کیا جائےگا بلکہ اس کا تحفظ بھی کیا جائےگا۔ انسانی حقوق کا چارٹر اس کی بڑی مثال ہے‘پھر دنیا کےتقریباً تمام ممالک اور خاص طور سےترقی یافتہ جمہوریت پسند اور جمہوری نظام رکھنےوالےممالک کےاپنےقوانین ان تمام باتوں کا احاطہ کرتےہیں ۔ انسانی حقوق کےچارٹر سمیت ان ممالک کےقوانین میں واضح طور پر کہا گیا ہےکہ ہر انسان کو اپنی ذات سےمتعلق تمام تر
آزادی حاصل ہی۔ یہاں تک کہ وہ کون سا مذہبی عقیدہ رکھتا ہے‘ یا رکھنا چاہتا ہے۔ اس کی بھی اسےآزادی ہی۔ لیکن انسانی حقوق کےچارٹر سمیت دنیا کےکسی قانون میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ ایک انسان دوسرےانسان کی
آزادی میں مداخلت کری۔ یا دوسرےکےجو عقائد‘ ایمان ‘ اقدار ہیں اس کی نفی کری۔ اس کو برا بھلا کہےیا اس کی توہین کری۔اس کا صاف مقصد یہ ہےکہ ایک انسان کی
آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہےجہاں سےدوسرےکی شروع ہوتی ہی۔ لہٰذا یہ کہنا کہ توہین
آمیز کارٹون کی اشاعت ”آزادی¿ اظہار“ ہےتو یہ نہ صرف خود انسان کےاپنےبنائےہوئےقانون بلکہ قدرت کےقوانین کی بھی نفی ہی‘ جو قابل گرفت اور قابل سزا جرم ہی۔ دنیا بھر خاص طور سےیورپ میں ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں جب کسی فوٹو گرافر نےکسی نامور شخص کی تصاویر بنائیں اور اخبار نےانہیں شائع کیا تو ایسےاخبارات پر ہرجانےکےدعوےدائر کیےگئی۔ عدالتوں نےایسےاخبارات پر جرمانےعائد کیی۔اب اگر ڈنمارک یا دیگر ممالک کی حکومتیں یہ کہتی ہیں کہ یہ
آزادی¿ اظہار ہےاور ان کےممالک میں اظہار پر کوئی قدغن نہیں ہےاس لیےوہ ایسےاخبار کےخلاف کچھ نہیں کر سکتےتو وہ حقائق سےآنکھ چرانےکی بات کرتےہیں۔
|