|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
پنجہ یہود اور یورپ
یہودی ایک ایسی قوم ہےجس کےلینےاور دینےکےپیمانےمختلف ہیں۔ اس قوم کےنزدیک جرم صرف وہ ہےجوان کےخلاف ہو۔ قرآن کریم کی گواہی اور خود ان کی تلمود ایسےحوالوں سےبھری پڑی ہےکہ کوئی اخلاقی قدر یا معاہدہ یہودیوں کےلیےصرف اس وقت تک مو¿ثر رہا ہےجب تک وہ ان کےمفاد میں تھا۔ غیر یہودی کا قتل اور چوری یا ان سےدھوکہ جائز ہی۔ ان کی ان ہی عادات کی بناءپر دنیا ان سےنفرت کرتی ہی۔ یورپ میں ان سےنفرت کا یہ حال ہےکہ 19ویں صدی کےآخر تک یورپ کےکسی بھی ملک میں انہیں کاروبار کی اجازت نہیں تھی۔ تاریخ میں اگر کہیں ان کو پناہ ملنےکا ذکر ہےتو صرف سپین کےمسلم عہد میں یا سلطنت عثمانیہ کےعہد میں لیکن جس کشتی میں سوار ہوں اسی میں چھید کرنےکی عادت نےانہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ باقی ملکوں کےمقابلےمیں جرمنی میں ان پر پابندیاں کم تھیں اس لیے20ویں صدی کےآغاز تک ان کی تعداد میں بےپناہ اضافہ ہوگیا اور پھر وہاں بھی یہ معتوب ٹھہری۔ نازی جرمنی میں ان پر ہونےوالےمبینہ مظالم کےلیےہولو کاسٹ Holoastکی اصطلاح وضع کی گئی اور دعویٰ کیا گیا کہ ہٹلر نے60لاکھ یہودی مروائےان میں سےبہت سوں کو گیس چیمبرز میں ڈال کر مارا گیا ان کا یہ دعویٰ اتنا مقدس ہےکہ 60لاکھ کی تعداد یا گیس چیمبرز وغیرہ کےالزامات پر شک کرنا یا اس پر کسی قسم کی علمی بحث کرنا بھی جرم ہی۔
آزادی رائےکےعلمبردار یورپی ممالک اور امریکہ میں ہولوکاسٹ پر شک کرنےوالوں کو جیل میں ڈالا جاتاہی۔ دیئےگئےاعزارات واپس لیےجاتےہیں اور ان کا جینا حرام کر دیا جاتا ہی۔ علمی تحقیق کرنےوالوں کو چوراچکوں اور ڈرگ سمگلروں کےساتھ جیل میں بند کیاجاتا ہی۔ میدان جنگ میں یہودیوں کو برا کہنےوالےاندھی گولیوں کا نشانہ بن جاتےہیں۔
آسٹریا میں ان کو مطعون کرنےکی سزا 20سال قید ہےاور ہر سال 24‘25افراد اس جرم میں جیل جاتےہیں اس کےباوجود ڈنکےکی چوٹ اپنےنازی
آباءپر فخر کرنےوالےافراد جمہوری عمل کےذریعےحکومت میں
آرہےہیں ان میں سےایک جارج حیدر بھی ہےجس کی پارٹی
آسٹریا میں حکمران کولیشن کاحصہ ہی۔ یہودیوں کا دعویٰ ہےکہ پولینڈ کےقصبہ Auswitz”ایشوچ“ میں واقع نازی کیمپ میں 1943ءسے1945ءتک بارہ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا اور طریقہ قتل گیس چیمبرز تھا۔1989ءمیں وی
آنا میں ایک برطانوی ڈیوڈارونگ نےاپنےمقالےمیں گیس چیمبرز کےوجود کا انکار کیا تو اس کےخلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔نومبر2005ءمیں یہ شخص کسی ایسےہی سیمینار میں شرکت کےلیےدوبارہ
آسٹریا آیا تو اسےگرفتار کر لیا گیا اور ان دنوں یہ مقدمہ زیرسماعت ہی۔
27جنوری 1945ءکو روسی فوجوں نےایشوچ پر قبضہ کیا اور قید یہودیوں کی زندگیاں بچائیں۔27جنوری2005ء کو ایشوچ کوآزاد کرانےکی 60ویں سالگرہ کا جشن منایا گیا۔ سخت سردی یعنی نقطہ انجماد سےآٹھ درجےنیچےاور برفباری کےباوجود اس تقریب میں 5500حاضرین تھی۔ بی بی سی‘ سی این این سمیت یورپ کےبہت سےٹی وی چینلز نےتین گھنٹےسےزیادہ دیر اس تقریب کو رواں نشر کیا۔ حاضری لگوانےیعنی یہودیوں کےساتھ اظہار یکجہتی کےلیےامریکہ کےنائب صدر ڈک چینی ‘پولینڈ کےمیزبان صدر یورپ کےبہت سےسربراہان مملکت سمیت جرمنی کےچانسلر گربارڈشروڈر بھی اپنی مذمت کروانےکےلیےوہاں موجود تھی۔ اس تقریب کےدولہا اسرائیل کےصدر تھےجنہوں نےاپنی ڈانٹ ڈپٹ سےبھرپور تقریر میں تمام یورپی ممالک کو یہودیوں پر ہونےوالے”مظالم“ کا ذمہ دار قرار دیا۔ تمام سفارتی
آداب کو بالائےطاق رکھتےہوئےنازیوں کےبجائےساری جرمن قوم کو ”قتل عام“ کا مجرم قرار دیا اسی پر بس نہیں کیا۔ یورپ کےتمام حکمرانوں کو مخاطب کرکےکہا ‘ ”اگرچہ اس وقت
آپ کےملک جرمنی کےزر تسلط تھےپھر بھی یہ
آپ کی ذمہ داری تھی کہ یہودیوں کو بچاتےگویا خود مرتےمرجائو یہودیوں کی حفاظت ضرور کرو۔“
|