|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
مغربی تہذیب‘ اسلام دشمنی کےعمیق اسباب
کوئی سمجھےیا نہ سمجھی‘ کوئی تسلیم کرےیا نہ کرےڈنمارک میں شائع ہونےوالےاہانت
آمیز خاکےاس عیسائی اور مغربی ذہنیت کا اظہار ہیں جو اسلام‘ پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کےبارےمیں صدیوں سےمغرب کےدل ودماغ میں موجود ہی۔ ممتاز نومسلم سکالر علامہ محمد اسد نےاپنی مشہور زمانہ کتاب ”دی روڈ ٹو مکہ“ کےدیباچےمیں بڑی تفصیل سےاس موضوع پر اظہار خیال کیا ہےکہ اسلام کےبارےمیں مغربی اقوام کا رویہ معاندانہ کیوں ہی۔ ان کا کہنا ہےکہ صلیبی جنگوں سےپہلےکی صدی اور پھر صلیبی جنگیں تہذیب مغرب اور اس کےماننےوالوں کےحافظےمیں اس طرح موجود اور برسرکار ہیں جس طرح ایک انسان کےبچپن کی یادیں‘ تعصبات‘ ہمدردیاں اور مخالفتیں ساری زندگی اس کےساتھ رہتی ہیں اور وہ ان سےچھٹکارا نہیں پا سکتا۔ اسد نےجب اپنی مذکورہ کتاب لکھی تو اس وقت تک ”تہذیبوں کےتصادم“ نام کی کوئی تھیوری پیش نہیں کی گئی تھی اور کتاب کےتحریر کیےجانےکےوقت مسلمانوں اور مغربی اقوام کےدرمیان کوئی گرم محاذ بھی کھلا ہوا نہ تھا۔ مسلمان بالعموم دنیا میں پسماندہ تھی۔ سیاسی
آزادی سےبھی محروم تھےاورمغرب کی کسی فکری یا نظریاتی یلغا رکا مقابلہ کرنےکی پوزیشن میں بھی نہ تھی۔ اس پوزیشن میں تو وہ اب بھی وہ پوری طرح نہیں ہیں لیکن پچھتر اسی سال پہلےتو مسلمان اور بھی کمزور پوزیشن میں تھی۔ اس وقت علامہ اسد کی باریک بین نگاہوں اور ان کےذہن رسا نےمغربی اور اسلامی تہذیب کےدرمیان تصادم کےعمیق اسباب کا تعین کر لیا تھا۔
آج تو ڈنمارک کےوزیراعظم کہتےہیں کہ گستاخانہ خاکوں کا معاملہ صرف ان کےملک تک محدود نہیں رہا یہ ”یورپ بمقابلہ عالم اسلام“ کا رنگ اختیار کر چکا ہی۔ وزیراعظم شوکت عزیز نےکہا ہےکہ اسلام‘ تہذیبوں کےتصادم پر یقین نہیں رکھتا اور او
آئی سی کےارکان کو عالمی سطح پر یکہ وتنہا رہ جانےکےخدشےاور اندیشےسےاپنےآپ کو بچانا چاہیی۔ وزیراعظم شوکت عزیز تہذیبوں کےتصادم کےنظریئےکو درست مانتےہوں یا نہ مانتےہوں‘ خاکوں کی اشاعت‘ اس پر مسلمانوں کےردعمل نیز ڈنمارک کےوزیراعظم اور ان کی حکومت اور متعلقہ اخبار یا اخبارات کےایڈیٹروں کےاظہار افسوس اور اظہار ندامت کرنےاو رمعافی مانگنےسےانکار سےظاہر ہوتا ہےکہ تصادم کی جڑیں بہت گہری ہیں اور تنازع صرف
آزادی اظہار کی حدود اور انداز کا نہیں ہی۔ غلام محمد اسد نےاسلامی اور مغربی تہذیبوں کےدرمیان مخاصمت کےعوامل کی جو تشخیص پون صدی پہلےکی تھی اس کی ایک دو جھلکیاں میں
آپ کو انہی کےالفاظ میں دکھانا چاہتا ہوں۔ اسد لکھتےہیں:
What Oidentals think and feel about Islam today is rooted in impressions that were born during the rusades.
'The rusades!' exlaimed my friend. 'You don't mean to say that what happened nearly a thousand years ago ould still have an effet on people of the twentieth entury?'
But it does! I know it sounds inredible; but don't you remember the
inredulity whih greeted the early disoveries of the psyhoanalysts when they
tried to show that muh of the emotional life of a mature person and most of
those seemingly unaountable leanings, tastes and prejudues omprised in the term
"idiosynrasies" can be traced
back to the experienes of his most formative age, his
early childhood?
|