|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
مغرب کی اسلام مخالف انتہاپسندی
مغربی ممالک کےاخبارات میں آزادی اظہار
کی آڑ میں بانی اسلام حضرت محمد کی مذموم ترین اہانت کی غلیظ مہم آزادی اظہار کی آڑ
میں شروع کی گئی۔ آزادی اظہار کےعلمبردار یہ بھول گئےکہ ہر آزادی کا سنگھار چند
حدود وقیود اور پابندیوں سےہوا کرتا ہی۔ بدلگام‘ بگٹٹ اور بےقابو آزادی معاشروں اور
مملکتوں میں ہمیشہ افراتفری‘ انتشار‘ تصادم او رطوائف الملوکی پھیلانےکا موجب بنی
ہی۔ مغرب کےچند اخبارات نےگزشتہ ڈیڑھ عشرہ سےاپنا یہ معمول بنا رکھا ہےکہ وہ آئےروز
کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کرتےہیں جس سےمسلمانوں کی دلآزاری ہو۔ ایک ذمہ دار
پریس ہی کا طغرائےامتیاز یہ ہوا کرتا ہےکہ وہ قارئین کیلئےایسے فکر انگیز مواد کو
تزئین وتشکیل کےبعد زیور طباعت سےمرصع کرتا ہےجو ایک طرف جہاں قارئین کےعلم میں
اضافہ کا موجب بنےوہاں وہ انہیں ذہنی‘ فکری‘ نظری سطح پر نشاط‘ اہتنراز ابتہاج
کےآفاق کی توسیع پذیری میں مدد دی۔ امریکی صدر جنرل بش کےجنوب مشرقی ایشیاءکےدورےپر
روانگی کا اعلان سامنےآتےہی چند عاقبت نہ اندیش مغربی اخبارات نےحضور اکرم کےاہانت
آمیز خاکوںکی اشاعت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ چند ماہ قبل پہلےپہل جب یہ خاکےشائع
ہوئےتو ڈنمارک کےاخبار کےمدیر نےاسےاپنی ادارتی پالیسی کا ایک حصہ قرار دیا۔ صدر بش
وائٹ ہائوس یا کیم ڈیوڈ میں عالمی رہنمائوں سےمذاکرات کر رہےہوں یا وہ کسی بین
الاقوامی فورم اور سیمینار سےخطاب کر رہےہوں ‘وہ اکثر وبیشتر اپنےہر بیان‘ تقریر‘
گفتگو اور بات چیت میں اس پر زور دیتےرہتےہیں کہ امن عالم اور انسانیت کیلئےسب بڑا
خطرہ انتہاپسندانہ تصورات ونظریات کا پرچار اور فروغ ہی۔ یہ ایک حقیقت ہےکہ اس دنیا
کو جسےباشعور اور سنجیدہ فکر دانشور جنت ارضی بنانےکیلئےبین المذاہب ہم آہنگی اور
بیان الانسانی مکالمےکی افادیت اور اہمیت پر ایک تسلسل کےساتھ زور دیتےآ رہےہیں۔
بیسویں صدی کےآخری عشرہ میں جب سرمایہ کارانہ نظام کےمخالف کمیونسٹ بلاک کےسرخیل
سوویت روس کا انہدام ہو گیا تو امریکا کی رولنگ کلاس نےنیو ورلڈ آرڈر کےنام پر دنیا
کو ایک نئی فکر اور نظریےکےچنگل میں پھانسنےکیلئےدہشت گردی اور انتہاپسندی
کےخاتمےکےخلاف جنگ کا ڈھول پیٹنا شروع کیا۔ دنیا کا کوئی بھی ذی شعور شہری
انتہاپسندی اور دہشت گردی کو کسی بھی طور اپنےمعاشرےاور مملکت میں پذیرائی‘ رسوخ
اور نفوذ دینےکا حامی نہیں۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی واقعتا ایک مذموم طرزفکر اور
روش عمل کا نام ہی۔ انتہاپسند اور دہشت گرد وعناصر دنیا کےہر براعظم‘ ہر خطی‘ ہر
ملک‘ ہر معاشرےاور ہر مذہب میں ہمیشہ سےموجود رہےہیں لیکن دہشت گردی اور انتہاپسندی
کی سرکوبی اور بیخ کنی کا عزم لےکر سرگرم عمل ہونےوالا امریکا اور اس
کےمجازکارپردازان بذات خود تنگ نظری‘ قدامت پسندی‘ مذہبی جنون اور انتہاپسندی کا
شکار ہو گئی۔ یہ درست ہےکہ لوہےکو لوہےسےکاٹا جا سکتا ہےلیکن انتہاپسندی کا انسداد
وتدراک انتہاپسندی سےنہیں کیا جا سکتا۔1950ءسے1990ءتک امریکی حکمرانوں نےکمیونزم کو
انسانیت کیلئےایک بڑےخطرےکےطور پر پینٹ کیا اور اس کی محافظ دنیا کی دوسری بڑی طاقت
سوویت روس کےخلاف سردجنگ کا آغاز کر دیا۔ کمیونزم کےاثرات کےتارو پود
بکھیرنےکیلئےنصف صدی تک امریکی سرد جنگ کےالاو بھڑکاتےرہےلیکن جب کمیونزم اپنی جنم
بھومی میں دم توڑ گیا تو امریکیوں نےدہشت گردی اور انتہاپسندی کا لیبل روح عسکریت
سےسرشار ان تمام مسلم شہریوں اور ممالک پر چسپاں کر دیا جنہوں نےسوویت روس
کےانتہاپسندانہ اور توسیع پسندانہ استعماری عزائم کی بساط لپیٹنےمیں کلیدی کردار
ادا کیا تھا۔ جب یہ مسلم ممالک اور ان کےشہری سوویت روس کےتوسیع پسند سوشل سامراج
کےراستےمیں سیسہ پلائی دیوار بنےکھڑےتھےتو امریکی ومغربی میڈیا انہیں توقیر وتکریم
کی نگاہ سےدیکھتا تھا اور عالمی برادری کےسامنےانہیں مجاہدین کےروپ میں پیش کر رہا
تھا۔ حقیقت یہ ہےکہ امریکا کی بھڑکائی ہوئی اس سردجنگ میں اگر مسلم شہریوں کا خون
گرم شامل نہ ہوتا تو سوویت روس آج بھی ایک بڑی طاقت کی حیثیت سےامریکا کےمدمقابل
سینہ تانےکھڑا ہوتا۔
|