|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
مغربی مفکرین کا فکری انتشار
اسلامی ممالک اور یورپ کےبڑےشہروں میں
مسلمانوں کی جانب سےتوہین رسالت کےحوالےسےہونےوالےحالیہ مظاہروں نےفکری اعتبار
سےمغربی مفکرین اور حکومتوں کو دو واضح گروہوں میں تقسیم کر دیا ہی۔ ایک گروہ کا
کہنا ہےکہ وہ ایک مکمل نوعیت کی آزادی اظہار رائےپر یقین رکھتےہیں اور اس
حوالےسےکسی مصالحت یا کسی استثنیٰ کیلئےراضی نہیں کیونکہ ان کےنزدیک ایسا
کرنےسےدنیا میں جمہوریت او رجمہوری عمل کےفروع کو نقصان کا خدشہ ہےتاہم دوسرےگروہ
کا کہنا ہےکہ جمہوریت اور دنیا میں جمہوری اقدار کا فروغ ایک حساس اور پیچیدہ عمل
ہےجو بڑی ذمہ داری‘ مختلف قوموں اور طبقہ فکر کےدرمیان افہام وتفہیم‘ باہمی رواداری
اور ایک دوسرےکی روایات کی تعظیم کا تقاضا کرتا ہی۔ اس گروہ کا یہ بھی کہنا ہےکہ
بلاحدود قیود آزادی اظہار رائےکی حکمت عملی طویل المعیاد نہیں ہو سکتی۔ ایک نہ ایک
دن اس اہم جمہوری قد رکی حدود معین کرنا ہوں گی اور اس کیلئےاخلاقیات اور قواعد
وضوابط ترتیب دینا لازمی امر ہو گا چنانچہ ان کےنزدیک آزادی اظہار رائےکو بنیاد بنا
کر کوئی غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کران جمہوریت کیلئےزیادہ نقصان دہ ہی۔
موخرالذکر مکتبہ فکر اس بات کا بھی قائل ہےکہ کیا صحیح ہےاو رکیا غلط یہ طےکرنےکی
اجارہ داری کسی ایک فکری نظام کسی ایک کلچر یا تہذیب کےپاس نہیں ہےاس لیےاگر اہل
مغرب اپنےآزادی اظہار رائےکےاصول پر اسی طرح ڈٹےرہیں گےتو مسلمانوں کو بھی یہ حق
حاصل ہےکہ وہ اپنےپیغمبر کی ذات اقدس کےحوالےسےکوئی گستاخی برداشت نہ کریں خود مغرب
کی عیسائی تنظیموں نےبھی اس امر کا اعتراف کیا ہےکہ بلاشبہ وہ آزادی اظہار
رائےکےمکمل حامی ہیں لیکن اگر کوئی حضرت عیسیٰ یا حضرت مریم کی شان میں گستاخی کا
ارتکاب کرےتو ان کی بھی لازماً دل آزاری ہو گی اور وہ بھی کسی نہ کسی شکل میں
احتجاج کریں گی۔ یہاں اس بات کا تقاضہ بھی کیا جا رہا ہےکہ مسلمان ممالک میں مغرب
کےخلاف پائےجانےوالےجذبات کا سنجیدہ مطالعہ وتجزیہ کیا جائی۔ ہم نےجن دو فکری طبقات
کا مذکورہ بالاسطروں میں ذکر کیا ہی۔ ان کی واضح مثال خود سیکنڈےنیوین ممالک ہیں جن
کی سیاسی پالیسیاں عام طور پر باہمی اتفاق اور مشترکہ مفادات واقدار کی ترجمانی
کرتی ہیں لیکن توہین رسالت کےحوالےسےان میں واضح اختلاف دیکھنےمیں آیا ہی۔ ڈنمارک
جہاں کےاخبار جیلانڈپوسٹن نےاس سنگین اور مذموم معاملےکی ابتدا کی تاحال اپنی مکمل
نوعیت کی آزادی اظہار کی پالیسی کےدفاع پر قائم ہےاور پہلےفکری طبقےکی نمائندگی
کرتا ہےجبکہ سویڈن اور ناروےکا کہنا ہےکہ کسی کےدینی جذبات سےکھیلنا صحیح نہیں ہےاو
روہ ایسا کرنےوالوں کےساتھ شامل ہونا یا شامل سمجھاجانا پسند نہیں کرتی۔ اس اعتبار
سےسویڈن اور ناروےدوسرےطبقہ فکر میں شامل ہیں۔ مغربی تہذیب کا ایک غالب اور نمایاں
فکری عنصر یہ رہا ہےکہ عمومی معاشرتی زندگی میں اور خاص طور پر جمہوریت کےمقابلےمیں
دینی وروحانی اقدار کو کبھی بھی خاطرخواہ اہمیت نہیں دی گئی۔ سائنسی علوم کی ترویج
وترقی نےعوامی سطح پر سائنسی طرزفکر کو جنم دیا اور اہل مغرب کو صرف محسوس کیےجا
سکنےوالےاور سائنسی اعتبار سےتصدیق کیےجا سکنےوالےحقائق ومظاہر تک محدود کر دیا۔ اس
کےنتیجےمیں عقلیت پرستی پیدا ہوئی او رمذہبی وروحانی اقدار سےدوری نےمادہ پرستی کو
جنم دیا۔ چرچ کی دی ہوئی مذہبی وروحانی اقدار میں قدامت پرستی جمود اور رہبانیت
غالب تھی۔ اس لیےاس میں اتنی قوت نہ تھی کہ وہ اس نئی ہمہ وقت بدلتی ہوئی زندگی کی
رونقوں اور توانائیوں سےبھرپور طاقتور فکری انقلاب کا مقابلہ کر سکےچنانچہ چرچ
نےبھی اس نئےفکری نظام کو اپنانےہی میں اپنی عافیت سمجھی۔ آج عقلیت پرستی اور مادہ
پرستی مغربی نظام فکر اور معاشرتی زندگی کےتمام پہلوئوں پر پوری طرح غالب ہی۔ مغرب
کےفکری حلقےمذہبی وروحانی اقدار کےقائل طبقات کو اب کبھی سنجیدگی سےنہیں لیتی۔
ڈنمارک کےاخبا رجیلاند پوسٹن کی گستاخی رسولکےحوالےسےمذموم اخبارات اصل میں فکری
اعتبار سےاسی تاریخی پس منظر میں تھی اور اس پس منظر کےباعث ابتداً ان مظاہروں کو
سنجیدگی سےنہیں لیا گیا۔ مغرب کےعالمی غلبےاور نوآبادیاتی نظام کےذیعےسےعقلیت پرستی
اور مادہ پرستی بمقابلہ دین وروحانیت کی کشمکش اسلامی ممالک میں بھی متعارف ہوئی۔
مغرب نےاپنےفکری تہذیبی اور ثقافتی غلبےکیلئےتمام وسائل اور طاقت کا استعمال کیا
اور کر رہا ہی۔ ابتداً مغربی اہل فکر نےعیسائیت اور اسلام کےدرمیان فرق کو نہیں
پہنچانا۔
|