|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
ترکان احرار او ریہود نواز
آسٹروی جج
19 فروری (اتوار) کو لاکھوں ترکوں نےاستنبول میں یورپ کےاندر سرور کونین محمدکےتوہین
آمیز خاکوں کی اشاعت کےخلاف کمال نظم وضبط کا مظاہرہ کیا۔ وہ ڈنمارک‘ اسرائیل اور امریکہ کےخلاف پرجوش نعرےلگا رہےتھی۔ اس مظاہرےکا انتظام اسلامی اخوت پارٹی نےکیا تھا‘ جس کےرہنما ساتھ ساتھ لائوڈسپیکروں پر اعلان کر رہےتھےکہ ترک مسلمانوں کا یہ ٹھاٹھیں مارتاسمندر دنیا کےڈیڑھ ارب مسلمانوں کےغم وغصےکی علامت ہےاور ظلم کےخلاف مزاحمت جاری رہےگی۔
ترکی 99 فیصد مسلم اکثریت کا ملک ہےاور فرقہ بندی سےبڑی حد تک پاک ہی۔ گزشتہ ہفتےکےدوران میں تقریباً ہر روز ترک شہروں میں توہین
آمیز خاکوں کےخلاف مظاہرےہوتےرہی‘ جو پاکستان کےبرعکس انتہائی پرامن تھی‘ جس کی بڑی وجہ یہ ہےکہ وہاں وزیراعظم رجب طیب اردگان برسراقتدار ہیں‘ جو اگرچہ ”اردگا“ یعنی ”عسکری“ کہلاتےہیں‘ مگر عسکری پیشےسےان کا کوئی تعلق نہیں اور انہوں نےاقتدار کسی حادثےمیں نہیں ہتھیایا۔ وہ ترکوں کےمنتخب اور محبوب رہنما ہیں اور استنبول کےمیئر کی حیثیت سےانہوں نےخدمت خلق کا جو اچھا ریکارڈ قائم کیا تھا‘ اس کےبل بوتےپر انتخاب جیت کر وہ برسراقتدار
آئی۔ وہ سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان کےساتھیوں میں سےہیں۔ ترک اس لحاظ سےخوش قسمت ہیں کہ انہیں اسلامی جذبےسےسرشار حکمران میسر ہیں‘جن کےدل اپنےمسلم عوام کےساتھ دھڑکتےہیں۔
استنبول کےڈنمارک شکن مظاہرےمیں جہاں چاند اور پانچ ستاروں والےسرخ قومی پرچم لہرا رہےتھی‘ وہاں سبز پرچم بھی تھی‘ جن پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور ”رحمت عالمہا حضرت محمد مصطفی“ کےالفاظ نمایاں تھی۔ رحمة اللعالمین کیلئے”رحمت عالمہا“ کی فارسی وترکی ترکیب کیا خوب ہی۔ ایک پلےکارڈ پر حضرت عیسی علیہ السلام Hz ISA (A.S) کےحوالےسےنعرہ درج تھا۔ بیشتر نعرےاور مطالبات ترکی زبان میں تھی‘ جن کا عربی رسم الخط مغرب نواز مصطفی کمال پاشا (اتاترک) نےبدل کر ترک قوم پر لاطینی رسم الخط جبراً مسلط کر دیا‘ جس کےنتیجےمیں ترکوں کی اچھی بھلی اسلامی زبان عالم اسلام کیلئےنامانوس بن کےرہ گئی ہی۔
استنبول کےمظاہرےمیں 47 سالہ اوہم ارکون (Ethen Erkovan) نےایک بینر اٹھا رکھا تھا جس کا دوسرا سرا اس کی بیٹی کےہاتھ میں تھا۔ بینر پر لکھا ہوا تھا: ”وہ لوگ پھیلتی ہوئی اسلامی برادری کو دہشت گرد ظاہر کرنےکی کوشش کر رہےہیں‘ جبکہ ہم تو امن کےعلمبردار ہیں۔ فرق یہ ہےکہ وہ قبضےاور ظلم کی تاریخ لکھ رہےہیں۔“ بعض مظاہرین نےیہودی ستاری‘ مسیحی صلیب اور نازی سوستیکا پر مشتمل پوسٹر اٹھا رکھےتھی۔ کچھ اور پوسٹروں پر ایک
آدمی ایک کتےکےساتھ دکھایا گیا تھا‘ جو سرخ گلاب پر لپک رہا تھا۔ کتا امریکہ کی علامت تھا‘ اس کی رسی پکڑنےوالا
آدمی اسرائیلی تھا اور گلاب اسلام کی علامت تھی۔ ایک اور بینرپر یہ مساوات درج تھی:
یہودی ستارہ +مسیحی صلیب = خون +آنسو
اس سے یہود ونصاریٰ کےخلاف ترکوں کےجذبات
آشکار تھی۔ مظاہرین ڈنمارک کی مصنوعات کےبائیکاٹ کا مطالبہ کر رہےتھےاور اخوت کا ایک لیڈر لائوڈسپیکر پر نعرےلگا رہا تھا: ”مغرب کا چلن ابوغریب ہی‘ گوانتانامو بےہی‘ ہیروشیما ہےاور نسل کشی ہی۔“ اخوت کےلیڈروں کا ایک نعرہ تھا: ”عالمی استعمار مردہ
آباد“ اور دوسرےبینروں پر یہ لکھا ہوا تھا: ”مسلم ترک قوم اپنےفلسطینی اور ایرانی بھائیوں کےساتھ ہی۔
ترکوں نےخالی خولی مظاہرےہی نہیں کیی‘ انہوں نےڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ
بھی کیا۔
|