|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
فکری پسماندگی کا شکار یورپی میڈیا
یورپ کےنامور مفکر اور نابغہ‘ روزگار دانشور Jaques Rousseu اور Jhon Loke کی روحیں یقینا اس وقت تڑپ کر رہ گئی ہوں گی جب حال ہی میں ایک یورپی اخبار نےان مفکروں کےپیش کیےہوئےاخلاقی نظریات کےبالکل برعکس مسلم امہ کی اعلیٰ ترین
آفاقیت کےواحد مرکز ومحور اور دنیا کی ہدایت ورہنمائی کیلئےتشریف لانےوالےآخری رسول برحق کی شان میں گستاخی کی جسار ت کا ارتکاب کیا اور عالم اسلام کو ذہنی زک پہنچانےکی نیت سےاپنی انتہاءکو چھونےوالی فکری پسماندگی کا مظاہرہ کیا‘ یہاں ہم صرف ”روسو“ کی بات کریں گی‘ کون نہیں جانتا کہ جینوا میں 1712ءمیں جنم لینےوالےاس عظیم اور نامور یورپی مفکر ودانشور کی زندگی میں اکتوبر 1749ءمیں ایک ایسا نیا موڑ
آیا تھا جب اس نےانسانی اخلاقی قدروں کےتحفظ کا علم بلند کرنا ضروری سمجھا اور اپنےننگےمعاشرےکی اخلاقی
بےراہ رویوں کو روکنےاور لگام دینےکیلئےعملی طور پر ایک اچھوتا مکالمہ تحریر کیا جس
کا عنوان تھا ”کیا سائنس اور فنون لطیفہ اخلاقیات کو برباد کرنےمیں اپنا کردار ادا
کرتی ہی؟“ اپنےاس مضمون میں اس نےیہ ثابت کر دیا ہےکہ ”اخلاقیات“ کی فطری عظمت
نےسائنس اور فنون لطیفہ کو بےنام ونشان کر دیا ہے۔ اس مغربی مفکر ”روسو“ کےبارےمیں
علم رکھنےوالوں کو معلوم ہو گا کہ روسو نےاپنی تمام زندگی ہنگامہ خیزیوں اور آوارہ
گردی میں بسر کی‘ تاہم اس کےبارےمیں یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ اس نےاپنی اس آوارہ
مزاجی اور غیرمستقل مزاجی کےہوتےہوئےبھی اپنی کئی اہم تحریروں میں مثلاً The Origin
Inequality میں ریاست کےعوام کی معصومیت کی تعریف اور ”زوال پذیر یورپی سوسائٹی“ پر
زبردست تنقید کی تھی‘ اس یورپی مفکر کو اگر اسی کےاپنےپیش کیےہوئےمضامین‘ کتب اور
فلسفہ کی روشنی میں جدید یورپ کا ”اخلاقی اور اصلاحی علمبردار“ کہا جائےتو شاید یہ
بات بےجا نہ ہو گی‘ اور آج جب ہم یورپ میں حد سےبڑھتی ہوئی اخلاقی بےراہ رویوں کا
یہ سیل رواں دیکھتےہیں تو ہمیں یہ ماننا پڑےگا کہ آج کےیورپ نے”سائنس اور فنون
لطیفہ“ کو تو اپنےگلےسےلگا رکھا ہےا ور معاشرتی اخلاقیات کی باگیں اس کےہاتھوں
سےتقریباً چھوٹ چکی ہیں‘ یہاں ہم پورےیورپ کی اخلاقی انحطاط پذیری پر بات کرنےکی
بجائےکیوں نہ صرف ڈنمارک کی بات کریں جو آج کل پوری مسلم دنیا میں نفرت کی سنگین
علامت بن چکا ہی۔ شمالی یورپ کےملک ”ڈنمارک“ کی شہرت کیا ہی؟ جہاں پر معاشرتی
اخلاقی باختگی کو قانونی اور سماجی تحفظ حاصل ہی‘ جس ملک میں انسانی اخلاقیات تو
کجا‘ قانونی ولدیت کا تصور تک نام کو نہیں اسی ملک سےشائع ہونےوالےایک اخبار
نے”ذرائع ابلاغ کی آزادی“ کےنام پر جہاں دنیا کی ڈیڑھ ارب سےزائد مسلم آبادی
کےانسانی اور مذہبی حقوق کو چیلنج کیا وہاں اس نےذرائع ابلاغ کی بنیادی آزادی کےاس
”عالمی تصور“ کی بھی دھجیاںبکھیر کر رکھ دیں جس انسان دوست تصورات کی تعلیمات ”روسو
او رجان لاک“ جیسےبڑےفلسفیوں نےان کیلئےمتعین کی تھیں‘ یہ بات بڑی عجیب سےمعلوم
ہوتی ہےکہ ویسےتو مغرب کےیہ لوگ جو اپنی عام زندگی میں ”احساسات“ معاشرتی قدروں
کےحوالےسےاپنےروزمرہ کےافعال کےاظہار کےذریعےدنیا کی دوسری ترقی پذیر قوموں پر یہ
ثابت کرنےمیں اپنا پورا زور صرف کر دیتےہیں کہ انسانی احساسات وجذبات کا احترام
کرنےکا جتنا سلیقہ انہیں آتا ہےدنیا کی دیگر غیرمغربی قوموں میں نہ تو ان جیسا یہ
سلیقہ ہی‘ اور نہ ہی ان کی طرح کےیہ طور طریقےان قوموں میں رائج ہیں متعصبانہ
تشہیری مہم کےطوفان بدتمیزی کےنتیجےمیں ایک ایسےملک کےپرنٹ میڈیا کےذریعےمسلمانوں
کےپیغمبر ختمی المرتبت کی شان والہصفات پر ایک ایسےگستاخانہ خاکےکےذریعےتشہیری حملہ
کیا گیا ہےجس گستاخانہ خاکےمیں اس انتہائی بدبخت اور لعنتی کارٹونسٹ نےیہ ثابت
کرنےکی ناکام کوشش کی ہےکہ (خدانخواستہ) اسلام کا آفاقی پیغام امن وسلامتی کی
بجائےمار ڈھار اور جنگ وقتال کا پیغام ہی“۔
|