|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
ڈنمارک، تاریخ کےآئینےمیں
ڈنمارک یورپ کےاہم ترین ممالک میں سےایک ہی۔ اپنی مضبوط معیشت اور تاریخی اہمیت کےحوالےسے اسےبین الاقوامی دنیا میں اہم مقام حاصل ہی۔ شہری حقوق کا علمبر دار ڈنمارک ایک لبرل سوسائٹی ہی۔ یہ وہ ملک ہےجس نےسب سےپہلےہم جنس پرست شادیوں کی اجازت دی اور اسےعوام الناس کا حق قرار دیا۔ اس کی سرحدیں جرمنی‘ سویڈن اور ناروےسےملتی ہیں۔93,094کلومیٹر
آبادی والےملک کا 1.6فی صد حصہ پانی پر مشتمل ہی۔
آئینی حکومت میں اختیارات کا منبع وزیراعظم کی ذات ہی۔
سب سےبڑا شہر کوپن ہیگن ہی ملک کا دارالحکومت ہی۔ ڈنمارک یورپی یونین کا اہم رکن ہی۔2005ءکےآخر تک اس کی
آبادی تقریباً 5,415,978نفوس پر مشتمل تھی جو 126افراد فی مربع کلومیٹر بنتی ہی۔ اس کا جی ڈی پی 188بلین امریکی ڈالرز جبکہ فی کس
آمدنی 34,718ڈالر بنتی ہی۔ اس کی کرنسی کا نام ڈینش کرائون ہی۔ ملک کا ڈائلنگ کوڈ 45ہی۔ ڈنمارک کا سب سے قدیم شہر رائب 700عیسوسی میں وجود میں
آیا۔ دسویں صدی تک ڈنمارک‘ ناروےاور سویڈن کا حصہ تھا۔ اسےچند سیاحوں نےنویں عیسوی میں حادثاتی طور پر دریافت کیا۔ ڈنمارک کا بادشاہ انگلینڈ‘
آئرلینڈ‘ ناروی‘ سویڈن‘ فن لینڈ‘
آئرلینڈ اور فرانس پر حکومت کرتا تھا بلکہ جرمنی اور ہالینڈ کےبھی کچھ حصےڈنمارک کی شہنشاہیت میں
آرہےتھی۔ 1658ءمیں سویڈن علیٰحدہ ہوگیا جبکہ 1814ءمیں ناروےنےبھی سویڈن کےساتھ الحاق کر لیا۔1830ءکی دہائی میں ڈینش میں بھی
آزادی اور قومی تحریکوں نےسر اٹھانا شروع کیا اور یورپ میں 1848ءکو
آنےوالےانقلاب کےنتیجےمیں ڈنمارک 5جون 1849ءکو ایک
آئینی مملکت کی صورت اختیار کر لی۔ ڈنمارک پہلی جنگ عظیم میں غیر جانبدار رہا لیکن دوسری جنگ عظیم کےآغاز پر ہٹلر نے9 اپریل 1940ءکو ڈنمارک پر بھی قبضہ کر لیا۔یہ قبضہ جنگ کےاختتام تک برقرار رہا۔ ڈنمارک 1973ءمیں نیٹوکا بانی ممبر بنا۔
ڈنمارک کی موجود ملکہ مارگریٹ IIہیں۔ اس نے یورپ میں سب سےپہلےآئینی حکومت کا راستہ اختیار کیا۔ ڈینش پارلیمنٹ 179افراد پر مشتمل ہی۔ الیکشن ہر چار سال بعد ہوتےہیں۔ اگر پارلیمنٹ وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کرتی ہےتو پھر پوری پارلیمنٹ کو استعفیٰ دینا پڑتا ہےاور نئےانتخابات ہوتےہیں۔ ملک ایک سیکولر سوسائٹی ہی۔ حکومت مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ عورتوں کو مردوں کےبرابر حقوق حاصل ہیں اور کسی قسم کا نسلی یا جنسی امتیاز نہیں ہی۔
ڈنمارک کو 13کائونٹیز اور 271 اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہی۔ نئےریفارمز کےتحت ان کی تعداد 98رہ جائےگی۔ نئےاضلاع میں کم از کم 20ہزار افراد کا ہونا ضروری ہوگا۔ ان ریفارمز کا اطلاق یکم جنوری 2007ءسےہوگا جس کےتحت کچھ اضلاع ناروےکا بھی حصہ بن جائیں گی۔ اس کے405جزیرےہیں۔ اس کی معیشت مزدوروں پر انحصار کرتی ہےاور ملک کی ٹریڈ یونینز کو بہت زیادہ مراعات و حقوق حاصل ہیں۔ 2003ءتک دوسرےممالک سےہجرت کر کےآنےوالےلوگ کل
آبادی کا 6.2فی صد تھی۔ ملک کے84.3فی صد لوگ چرچ
آف ڈنمارک کےممبر ہیں۔
ملک میں پٹرولیم اور قدرتی گیس کےذخائر ہیں جبکہ مچھلی‘ پتھروں اور چاک
کےذریعےبھی ملک بہت زیادہ زرمبادلہ کماتا ہی۔ ملک کا موسم سارا سال ابرآلود رہتا
ہی۔ ملک میں 100فی صد لٹریسی ریٹ ہی۔5جون 1849ءکو آئین وجود آنےوالےدن کو قومی دن
قرار دیا گیا ہی۔ عدلیہ کا نظام سول لاءسسٹم پر مشتمل ہی۔ سپریم کورٹ آف ڈنمارک ملک
کی سب سےبڑی عدالت ہی۔
|