|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
یورپی پارلیمنٹ میں
صلیبی جنگ کی باز گشت
ایک طرف صدر پاکستان جنرل پرویز صدر
مشرف نےوزیر اعظم ڈنمارک سےخاکوں کی اشاعت پر معافی مانگنےکا بھی مطالبہ کیا تو
ادھر سٹرا سبرگ میں یورپی پارلیمنٹ کےارکان نےیورپ اور اسلامی دنیا میں پیغمبر
اسلام کےبارےمیں چھپنےوالےمتنازع خاکوں کےخلاف ہونےوالےپر تشدد مظاہروں کی مذمت کی
ہےاور ڈنمارک کےساتھ ”یکجہتی “ کا اظہار کرتےہوئےکہا کہ یورپی یونین کےرکن کسی بھی
ملک پر حملہ سب پر حملےکےمترادف سمجھا جائےگا۔ یورپی کمیشن کےصدر جوز مینوئل برسو
نےدھمکی دی کہ ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ پورےیورپ کےبائیکاٹ کےبرابر خیا ل کیا
جائےگا۔ توہین رسالت کا ارتکاب کرنےوالوں کےساتھ اس ”اظہار یکجہتی“سےاب اس امر میں
کوئی شک و شبہ نہیں رہنا چاہیےکہ اسلام اور مسلمانوں کےخلاف نئی صلیبی جنگ پوری شد
ومد سےجاری ہی، جس کا اعلان امریکہ اور اس کےاتحادیوں کےافغانستان پر حملےکےساتھ ہی
صدر بش کی زبان سے”کروسیڈ“ کی شکل میں کیا گیا تھا۔ اس کےبعد جھوٹےاور شرمناک
بہانوں کی بناءعراق پر ظالمانہ فوجی تسلط ہوا، امریکہ و اسرائیل کی طرف سےایران پر
حملےکی دھمکیاں دی جانےلگیں اور اب توہین رسالت کا ارتکاب کرتےہوئےمغربی اخبارات و
جرائد نےنبی کریم کےخاکےشائع کرکےکوفی عنان کےالفاظ میں مسلمانانِ اسلام عالم
کےزخموں پر نمک چھڑکا ہی۔ مسلمانوں کےخلاف صلیبی جنگوں کا آغاز گیارہویں صدی عیسوی
کےاواخر میں ہوا تھا۔ 1099ءمیں یورپ کےوحشی صلیبی لشکر شام ، لبنان اور فلسطین میں
تباہی مچاتےہوئےبیت المقدس پر آن قابض ہوئےتھی۔ حضرت عیسیٰ کےنام لیوا ان درندوں
نےبیت المقدس میں 70ہزار نہتےمسلمان شہید کردئیی، مسجد اقصیٰ اور حرم شریف کا احاطہ
پناہ گزین مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کی لاشوں سےپٹ گیا تھا کہ ایک صلیبی جنگجو
کےبقول ان کےگھوڑوں کےپائوں ٹخنوں سےاوپر تک انسانی خون میں ڈوبےجاتےتھی۔ پھر
1187ءمیں سلطان صلاح الدین ایوبی نےبیت المقدس کو صلیبوں کےخونیں پنجوں سےآزاد کر
لیا، جنہوں نےمسجد اقصیٰ اور قبتہ الضحرہ کو گرجےمیں بدل دیا تھا۔ اس نےعیسائیوں کو
پرُ امن طور پر شہر چھوڑ جانےکی اجازت دےدی۔ اس پر انگلستان کا شاہ رچرڈ، فرانس کا
شاہ ہنری اورجرمنی کا شاہ فریڈرک بیت المقدس کو مسلمانوں سےواپس
لینےکےلیےاپنےلشکروں کےساتھ چڑھ دوڑےتھی۔ اس طرح تیسری صلیبی جنگ چھڑی گئی تھی، جس
کےدوران فریڈرک شام کا ایک دریا عبور کرتےہوئےڈوب مرا۔ ہنری خائب و خاسر ہو کر لوٹ
گیا اور رچرڈ شکست کھا کر سلطان صلاح الدین ایوبی سےصلح کرنےپر مجبور ہوگیا، حتیٰ
کہ اس نےصلاح الدین کےبھائی ملک العادل کو اپنی بہن جولیانہ کا رشتہ دینےکی پیشکش
بھی کردی تھی ،جو سلطان نےمستردکر دی۔ صلاح الدین ایوبی کےبعد بھی یورپ کی صلیبی
جنگیں ایک صدی تک جاری رہیں، حتیٰ کہ دریائےنیل کی جنگ کےدوران میں فرانسیسی بادشاہ
کو مصری سلطان نےگرفتار کر لیا تھا اور پھر اسےبھاری تاوان کےعوض رہا کیا گیا تھا۔
آخری صلیبی جنگوں میں مصری مملوک سلاطین رکن الدین بیبرس اور سیف الدین قلاوون
نےصلیبی وحشیوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیا تھا۔اگرچہ1291 ءمیں دسویں صلیبی جنگ
کےاختتام سےبیت المقدس (یرو شلم) کی بازیافت کےحوالےسےصلیبی جنگوں کا سلسلہ تو ختم
ہوگیا تھا، لیکن سپین اورو سطی یورپ میں صلیبی جنگیں دوسری شکل میں جاری رہیں۔
1236ءمیں قرطبہ اور 1249ءمیں اشبیلیہ مسلمانوں کےہاتھ سےچھن گئےتھی، پھر 1492ءمیں
اندلس کا آخری حصار غرناطہ بھی عیسائیوں کےتسلط میں چلا گیا اور اگلی ایک صدی میں
جنونی پادریوں کی نگرانی میں سپین (اندلس) سےمسلمانوں کا مکمل صفایا کر دیا گیا۔ اس
دوران میں عثمانی ترک کو سوو، بوسنیا اور
سربیا(1396ئ)قسطنطنیہ(1453ئ)یونان(1468ء)اور بلغاریہ ، رومانیہ ، البانیہ اور ہنگری
پر قابض ہوگئےاور انہوں نےبار بار یورپ کےبڑےبڑےصلیبی عساکر کو شکستیں دیں۔
|