|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
اہانت رسول اور مغرب
استشراق (Orientalism)اور مستشرق(Orientalist)
آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کی تصریحات کےمطابق Orientسےمشتق ہیں جس کےمعنی مشرق یا مشرقی سمت کےہیں جہاں سےسورج طلوع ہوتا ہی۔ مشرقی کےمفہوم میں مشرق میں رہنےوالےاور مشرقیت سےمراد مشرقی خصوصیات ‘ اقدار‘ علوم ‘
آداب‘ فنون اور ثقافت وغیرہ سےواقفیت اور مہارت ہی‘ اسی سےمستشرق بنا ہےجس سےمشرقی زبانوں‘ علوم و فنون اور تہذیب و تمدن پر عبور رکھنےوالا شخص مراد ہوتا ہی۔ عربی قواعد کی رو سےاستشراق باب استفعال ہےجس کےجملہ خصائص ‘ لوازم یعنی اتخاذ و طلب اور تحول و تکلف کی جلوہ نمائی مستشرقین کےاحوال و شخصیات ‘ تحقیقات ‘ تخلیقات میں بہت نمایاں ہی۔ یعنی یہ کہ ان کا علم اکتسابی ہےجو محنت و ریاضت‘طلب و جستجو سےحاصل کیا گیا‘ اس کی خاطر سفری صعوبتیں برداشت کیں اور پھر اپنی تحقیقات کو دنیا کےسامنےاس طرح پیش کیا کہ ان میں ظن و تخمین اور تخیل کی کارفرمائی زیادہ ہی۔ یوں عربی میں استشراق کےلغوی معنی تہ تکلف مشرقی بننےاور مستشرق کا مطلب وہ شخص جس نےبہ تکلف مشرقیت اختیار کی۔ اردو لغت میں کم و بیش یہی مفہوم ہی‘ یعنی وہ فرنگی جو مشرقی زبانوں اور علوم کا ماہر ہو۔
مستشرقین اور استشراق کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں‘مگر ”رودی بارت“ نےجو تعریف کی ہےاس سےتحریک استشراق کا مفہم اور مقاصد واضح ہوتےہی۔ مستشرقین کےعرف میں لفظ ”مشرق“ کا جغرافیائی مفہوم مراد نہیں بلکہ ان کے ہاں مشرق سےمراد زمین کے وہ خطےہیں جن پر اسلام کو فروغ ملا۔ گویا مستشرقین کےنزدیک لفظ مشرق سےمراد اسلامی ممالک اور دنیائےاسلام ہی‘ یوں مستشرقین کی یہ تعریف سامنےآتی ہی۔
اہل مغرب بالعموم اور یہود و نصاریٰ بالخصوص جو ملت اسلامیہ کےمذاہب ‘ زبانوں ‘ تہذیب ‘ تمدن ‘ تاریخ ‘ ادب ‘ تعداد و ملی خصوصیات ‘ وسائل حیات اور امکانات کا مطالعہ اور معروضی تحقیق ان خفیہ مقاصد کےتحت کرتےہیں کہ انہیں انہیں ذہنی غلام بنا کر اپنا مذہب اور تہذیب ان پر مسلط کر سکیں اور سیاسی غلبہ حاصل کرکےان کےوسائل حیات کا استحصال کرسکیں۔ قارئین کےلیےمذکورہ بالا سطور میں استشراق اور مستشرقین کےحوالےسےیہ انگریزی ‘ عربی اور اردو کےلغوی معنی ‘ مفہوم اور تعریف اس لیےبیان کی گئی تاکہ وہ تحریک استشراق کےحقیقی مقاصد سےآگاہ ہوسکیں۔ اب دیکھتےہیں کہ تحریک استشراق کا
آغاز کب ہوا؟ عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہےکہ Orientalismلفظ چونکہ یورپی زبانوں میں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں رائج ہوا اس لیےیہ تحریک بھی انہی صدیوں میں شروع ہوئی لیکن مغربی مصنفین ہی کی تحریروں کےمطابق لشکر ابرہہ کی سرزمین عرب میں
آمد کےساتھ ہی مشرق و مغرب کے تصادم کا
آغاز ہوا جب لشکر ابرہہ ناکام و نامراد ہوا اور اس کےدو ماہ بعد پیغمبر اسلام کی ولادت ہوئی۔(تھامس رائٹ Early iristainalty In Afria) اس مضمون کو ایک جدیدمغربی مصنف اپنی کتاب ”A History of Medieval Islam“ میں یوں بیان کرتا ہے(نقل کفر کفر نہ باشد) ”اگر مغرب مکہ فتح کر لیتا تو پورا جزیرہ نما عرب بازنطینی و مسیحی پرچم تلےآجاتا‘ صلیب کعبہ کی چھت پر
آویزاں ہوتی اور شاید محمد بس ایک پادری یا راہب کی زندگی گزار کر چلےجاتی۔“
اس سےیہ بات امر واقعہ بن کر سامنےآتی ہےکہ ظہور اسلام کےساتھ ہی تحریک استشراق
کا آغاز ہوگیا تھا۔ کعب بن اشرف اور دوسرےیہودیوں اور عیسائیوں نےہجرت مدینہ کےبعد
نبی اکرم اور اسلام پر نہ صرف زبان طعن دراز کی بلکہ مسجد ضرار کےقیام کےذریعےرسول
اکرم کو شہید کرنےکی بھی کوشش کی‘ اسی طرح ایک یہودی عورت نےحضوراکرمکو گوشت میں
زہر ملا کر دیا جس کےاثرات تادم آخریں رہی۔ تاریخ کےمختلف ادوار میں اسلام کےخلاف
بالعموم اور پیغمبر اسلام کےخلاف بالخصوص بغض و عداوت کا اظہار کیا جاتا رہا۔
|