|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
یہ تہذیبوں کی نہیں ‘ ثقافتوں کی جنگ
ہے؟
ڈنمارک کےاخبار جس نےسب سےپہلےاہانت رسول پر دل
آزار کارٹون شائع کرنےکی جسارت کی اس اخبار کےایڈیٹر فلمینگ روز کا انٹرویو اہانت
آمیز کارٹونوں کی اشاعت کےحوالےسے ہفت روزہ ٹائم میں شائع ہوا۔ جس کا ترجمہ پاکستان کےمعروف محقق تنویر قیصر شاہد نےکیا ۔ بعدازاں یہ روزنامہ پاکستان کےسنڈےمیگزین کےایڈیشن میں شائع ہوا چونکہ اس انٹرویو کی اشاعت سےبہت سےپس پردہ عوامل کا پتہ چلتا ہی۔ اس لیےاسےمن وعن شامل کتاب کیا جا رہا ہی۔
چند برس قبل امریکہ کےمعروف محقق اور دانشور پروفیسر سیمول بی ہمٹنگٹن نے”تہذیبوں کےتصادم“(lash of ivilisations)کےنام سےایک ضخیم کتاب لکھی۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ سوویت یونین کی شکست و ریخت اور دنیا سے مقتدر کمونزم کےخاتمےکےبعد اب مغرب کی عیسائی مملکتوں اور مشرق کی ملت اسلامیہ کےدرمیان تصادم ہوگا۔ اس معرکہ
آرا تصنیف میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ شمالی امریکہ اور مغرب میں یہ سوچ اور فکر پروان چڑھ رہی ہےکہ عالم اسلام کےاندر بڑھتی ہوئی جہادی سوچ کی بنیاد پر عالم مغرب ‘ اسلام کو اپنا حریف اور دشمن خیال کرنےلگا ہی۔ اس تصنیف کےسامنےآتےہی دنیا کےکم ممالک ایسےہوں گےجہاں اس موضوع پر کئی رخوں سےگفتگو اور بحث و تمحیص نہ ہوئی ہو اور اس بارےمیں لاتعداد مضامین نہ لکھےگئےہوں۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہےکہ اس کتاب کا دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہونےکی وجہ سےیہ کتاب اب حوالہ (Referene)بن گئی ہی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہےکہ ہمٹنگٹن کی یہ کتاب امریکی پروپیگنڈےکا حصہ تھی‘ بہت سےلوگوں کا کہنا ہے(جن میں صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف اور اقوام متحدہ کےسیکرٹری جنرل کوفی عنان بھی شامل ہیں) کہ تہذیبوں کےتصادم کا کوئی امکان نہیں ہی....لیکن اس مصنف کی اس کاوش کےبعد (کیا یہ محض اتفاق ہی) کو سو اور بوسنیا میں عیسائی سربوں نےجس طرح مسلمانوں کا قتل عام کیا‘ خلیج کی وہ جنگیں ہوئیں‘ نائن الیون کا سانحہ پیش
آیا۔ اسامہ بن لادن نے”القاعدہ“ بناکر جس انداز میں مغربی اور امریکی سامراج کےخلاف ”جہاد “ کا علم بلند کیا۔ افغانستان میں مغرب کی عیسائی طاقتوں نےجس طرح طالبان کی مذہبی حکومت ختم کی‘ عراق میں صدر صدام حسین کا تیس سالہ اقتدار ختم کرکےوہاں قبضہ کیا گیا‘ لبنانی وزیراعظم رفیق الحریری کےقتل کےالزام میں شامی صدر بشارالاسد کو گھیرنےکی جو کوششیں ہور ہی ہیں اور ایران کےمبینہ ایٹم بم کا بہانہ بنا کر اس پر امریکہ کی طرف سےحملہ کرنےکی جو خبریں
آ رہی ہیں ‘ ان کےپس منظر میں یہ کہنا کہ تہذیبوں کا تصادم محض و اہمہ ہے‘ درست معلوم نہیں ہوتا۔
80ء کےعشرےمیں سلمان رشدی نے”شیطانی
آیات“ ناول لکھ کر حضور نبی کریمکی شان اقدس میں گستاخیاں کرنےکی شرمناک جسارت کی۔ اس واہیات اور دل
آزار ناول میں شیطان رشدی نےحضور کی ذات گرامی اور ان کےحرم پاک پر حملہ کیا تھا۔ مسلمانوں نےاس کےخلاف احتجاج کیا لیکن عالم مغرب اور امریکہ نےرشدی کی کتاب اور اس کی شخصیت کا جس طرح دفاع کیا اور حفاظت کی اس نےبھی واضح کر دیا کہ تہذیبوں کے تصادم کےامکانات واضح ہو رہےہیں۔ بعدازاں بنگلہ دیش کی ڈاکٹر تسلیمہ نسرین اور کینیڈا کی ارشاد مانجی نےبھی اسلام اور پیغمبر اسلام کےخلاف کتابیں لکھیں تو انہیں بھی مغربی قوتوں نےتحفظ فراہم کیا۔ (بدقسمتی سےیہ تینوں گستاخانِ اسلام مسلمان ہیں۔ کیا یہ اسلام کےنام پر دھبہ نہیں ہیں؟) مسلمانوں کو اس بات کا قلق رہا ہےکہ دشمنانِ اسلام کو مغرب کےممالک تحفظ فراہم کر رہےہیں جبکہ دوسری طرف مغربی معاشروں اور حکومتوں کی منطق اور دلیل یہ رہی ہےکہ وہ اپنےاپنےممالک میں
آئینی طور پر ان افراد کو ہی تحفظ دےرہےہیں جو
آزادی¿ اظہار کی بنیاد پر ان کا حق بنتا ہی۔
|