|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
یورپ اور عالم اسلام میں تصادم
ڈنمارک کےایک اخبار میں پیغمبر اسلام حضرت محمد کےتوہین
آمیز خاکوں کی اشاعت کےبعد بعض دیگر یورپی ممالک میں ان کارٹونوں کا شائع کیا جاناایک لمحہ فکریہ ہی۔ خاص طور پر جب ڈنمارک کےایک اخبار کی مذموم حرکت پر مسلمانوں میں پیدا ہونےوالےاضطراب کی وسعت کم ہونےکےبعد دیگر یورپی اخبارات کی طرف سےاس مذموم حرکت کا دہرایا جانا بڑا معنی خیز ہے۔ دنیا بھر کےمسلمانوں کی طرف سےان مذموم حرکتوں پر احتجاج نہ صرف فطری ہےبلکہ ایک مذہبی جذبات کی عکاسی بھی‘ مبصرین اور دانشوروں کی اکثریت کا اتفاق رائےہےکہ ان توہین
آمیز کارٹونوں کی اشاعت ایک بہت بڑی عالمی سازش ہی۔ بعض مبصرین کا خیال ہےکہ اسلام دشمن طاقتیں اس مذموم حرکت پر مسلمانوں کےردعمل کی وسعت اور گہرائی کا جائزہ لینا چاہتی ہیں تاکہ اگر مسلمانوں یا کسی بھی اسلامی مملکت کےخلاف کوئی بڑی کارروائی کی جائےتو اس کےکیا ممکنہ نتائج نکل سکتےہیں۔ بعض مبصرین کی رائےہےکہ اس مذموم اقدام کا مقصد یورپ اور اسلامی دنیا میں بڑھتےہوئےتعلقات کا رخ موڑ کر ان میں دوری پیدا کرنا ہی۔ کچھ دانشور یہ کہتےہیں کہ یہ تہذیبوں کےدرمیان تصادم کی ابتداءہےاور تہذیبوں کےدرمیان ان تصادم کےنتیجےمیں دنیا کےاندر سرد جنگ دوبارہ شروع ہوگی۔ کچھ دانشور اسےاسلامی دنیا پر ایک اور وار کرنے کےلیےزمین ہموار کرنےکا ایک اقدام قرار دیتےہیں۔ توہین
آمیز خاکوں کی اشاعت سےلےکر
آج تک تمام حالات اور واقعات کا بغور جائزہ لیا جائےتو بہت سےنتائج اخذ کیےجاسکتےہیں۔ ان خاکوں کی اشاعت کا
آغاز ڈنمارک کےایک اخبار سےشروع ہونا کوئی اتفاقی امر نہیں بلکہ یورپ کےاندر اس وقت جتنی بھی حکومتیں ہیں۔ ڈنمارک کی حکومت کو ان میں سب سےزیادہ دائیں بازو کی حکومت سمجھا جاتا ہی۔یعنی ڈنمارک کی حکومت پر انتہا پسند عیسائیوں کا غلبہ ہےاس لیےہم دیکھتےہیں کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی طرف سےشدید احتجاجی مظاہروں کےبعد ناروےکےاخبار اور حکومت نےتو مسلمانوں سےمعافی مانگ لی مگر ڈنمارک کی حکومت ابھی تک اس بات پر اڑی ہوئی ہےکہ وہ مسلمانوں سےمعافی نہیں مانگےگی اور اس ضمن میں اس کا کہنا ہےکہ معافی مانگنا پریس کی
آزادی کےخلاف ہی۔ ڈنمارک کےوزیراعظم نےنہ صرف معافی مانگنےسےانکار کیا بلکہ کوپن ہیگن میں مقیم اسلامی ممالک کےسفیروں کےساتھ اس سلسلےمیں ملاقات کرنےسےبھی انکار کیا۔ دوسری جانب ناروےاور بعض دیگر یورپی ممالک نےاس مذموم حرکت پر افسوس ظاہر کرتےہوئےمسلمانوں کےجذبات کو محسوس کیااور ان سےمعذرت بھی چاہی۔
ڈنمارک کےایک اخبار کی طرف سےمذموم حرکت کےبعد یورپ کےبعض دیگر ممالک کےاخبارات نےاس مذموم حرکت کی پیروی کرتےہوئےبظاہر یہ مو¿قف اختیار کیا کہ انہوں نےآزادی صحافت کےسلسلےمیں یکجہتی کےاظہار کےطور پر یہ توہین
آمیز خاکےشائع کیےہیں۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا یوری اخبارات عیسائیت یا یہودیت کےخلاف ایسی کوئی جسارت کر سکتےہیں۔ میرےخیال میں اگر وہ ایسا کرتےہیں تو خود ان کےاپنےعوام ان کا تیاپانچہ کرنےکےلیےکمربستہ ہوجائیں گی۔ سب سےپہلےمذموم کا رٹون شائع کرنےوالےڈنمارک کےاخبار کےایڈیٹر نےدیدہ دلیری سےیہ مو¿قف اختیار کیا ہےکہ اس نےایسا مسلمانوں کو صحافت کی
آزادی کا سبق سکھانےکےلیےکیا ہےتاکہ مسلمانوں کو یہ معلوم ہوسکےکہ یورپ میں صحافت کتنی
آزادہےڈنمارک کا مذکورہ ایڈیٹر کوئی پاگل یا کج فہم شخص نہیں کہ وہ یہ نہ سمجھ سکےکہ اس کی اس مذموم حرکت پر پوری دنیا کےمسلمان سراپا احتجا ج ہوسکتےہیں اور اس کےنتائج بڑےخطرناک برآمد ہوسکتےہیں ۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ ڈنمارک صرف اپنی
آزادی صحافت کےتحفظ کےلیےمعافی نہ مانگنےکی ضد پر اڑا ہوا ہےجب ہم متفقہ طور پر کہتےہیں کہ یہ سب کچھ ایک بڑی عالمی سازش کا حصہ ہےتو یہ کہنےمیں کوئی قباحت نہیں کہ ڈنمارک کا مذکورہ اخبار اور ڈنمارک کی حکومت اور خود وزیراعظم اس سازش میں مصروف عمل مہرےہیں۔
|