|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
توہین رسالت کےخلاف عالمی حکمت عملی
پاکستان کی تحریک پر اقوام متحدہ میں متعین اسلامی ممالک کےسفیروں نےتوہین رسالت کا مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھانےکا فیصلہ کیا ہے‘تاکہ مختلف مذاہب کےدرمیان باہمی احترام کےلیےایک ضابطہ¿ اخلاق کی منظوری حاصل کی جاسکی۔
توہین آمیز خاکوں کےخلاف احتجاج کےدوران لیبیا اور نائیجیریا میں 27افراد جاں بحق ہوگئےہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس مسئلےپر مظاہرےجاری ہیں۔ تاہم حکومت اور اپوزیشن کےبیانات سےصاف ظاہر ہوتا ہےکہ دونوں طرف برابر کا مورچہ لگا ہوا ہی۔ اپوزیشن ہر قیمت پر جلسےجلوس منعقد کرنےپر تلی ہوئی ہےاور حکومت ریاستی قوت کےبل بوتے پر قیام امن کو یقینی بنانےکا انتظام کر چکی ہےاس کی وجہ ابتدائی احتجاجی مظاہروں میں بدامنی اور تشدد کےمنہ زور مظاہرےہیں۔ اگرچہ اپوزیشن رہنمائوں کی طرف سےیقین دہانی کرائی جا رہی ہےکہ مظاہروں کےدوران تشدد اور توڑ پھوڑ سےان کا یا ان کےکارکنوں کا کوئی تعلق نہیں‘ تاہم لاہور‘ پشاور اور چند دیگر شہرں میں احتجاجی جلوسوں کےدوران جس طرح شرپسند عناصر نےحالات کا فائدہ اٹھایا ہے‘ اس سےحکومت بھی حفاظتی انتظامات کرنےمیں حق بجانب ہے‘بلکہ قیام امن اس کی
آئینی ذمہ داری ہی۔ دوسری طرف توہین رسالت مآب کی بناءپر لوگوں کےدلوں میں جذبات کالاوا ابل رہا ہی۔ صدر مملکت خود یہ تسلیم کر چکےہیں کہ جلسےجلوسوں کو روکنا ان کی حکومت کی‘ بس میں نہیں۔ لوگوں کو حرمت رسول کےجذبات کےاظہار کا موقع ملنا بھی چاہیی۔
بہتر تو یہ تھا کہ حکومت اور تمام سیاسی و مذہبی اور سماجی و رہنما مل بیٹھ کر عالمی سطح پر احتجاج کا کوئی طریقہ سوچتےاور یورپ سےاس مکالمےکا
آغاز کیا جاتا کہ وہ اسلامی شعائر کا مذاق اڑانا بند کر دی۔ اس بات کی تحقیق کی جاتی کہ تین ماہ بعد اب دھڑا دھڑ تمام یورپی اور عالمی اخبارات میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ کیوں چل نکلا ہے‘ اس کےپیچھےکیا مقاصد کارفرما ہیں اور کون سےنقاب پوش اس سازش کو ہوا دےرہےہیں ؟ یہ بھی طےکیا جانا ضروری تھا کہ حکومت اور اپوزیشن اس مسئلےپر ایک دوسرےکےساتھ سیاست نہیں کریںگی۔ مقصد اگر حرمت رسول اور تقدس پیغمبر کو منوانا ہےتو اس کےلیےایک دوسرےکو انتقام کا نشانہ بنانا کہاں سےجائز ہوگیا۔ اپوزیشن رہنمائوں کےان بیانات پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے‘ جن میں یہ کہا جاتا ہےکہ مشرف حکومت کےمستعفی ہونےتک یہ تحریک جاری رکھی جائےگی یا موجودہ حکمرانوں کو 23مارچ کی سلامی نہیں لینےدی جائےگی۔ اگر یہی روش ہر مسلمان ملک میں چل نکلےاور حکومت اور عوام
آپس ہی میں ٹکرانا شروع ہوجائیں تو گستاخان رسول کا منہ کون بند کرےگا؟ انہیں تو کھل کھیلنےکا موقع میسر
آجائےگااور مسلم امہ جگ ہنسائی کا سامان اپنےہاتھوں پیدا کرلےگی۔
صدر مشرف نےبجا طور پر کہا ہےکہ اس مسئلےکےحل کےلیےعالمی سطح پر حکمت عملی
تشکیل دینےکی ضرورت ہی۔ حکومت نےاس کےلیےاب سرگرمی سےکردار ادا کرنا شروع کر دیا
ہی۔ یہی کوششیں چند ماہ پہلےکر لی جاتیں تو عوام میں اس قدر اشتعال نہ پھیلتا۔
پاکستان اسلامی دنیا کا قلعہ ہی۔ یہ اسلام کےنام پر وجود میں آنےوالی واحد ریاست
ہےاسےآگےبڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیی۔ فوری طور پر اسلامی سربراہ کانفرنس کا ہنگامی
سربراہی اجلاس طلب کیاجائی‘اگر دسمبر میں بغیر کسی مقصد کےیہ اجلاس بلایا جاسکتا
تھا تو اب مسلم امہ کو جو سخت امتحان درپیش ہےاور غیر مسلم دنیا جس دیدہ دلیری سے
گستاخی پر اتر آئی ہے اور اسےآزادی اظہار کانام دےکر اپنا بنیادی حق قرار دیتی ہے‘
اس کےپیش نظر اسلامی سربراہی کانفرنس کا ہنگامی اجلاس بغیر وقت ضائع کیےمنعقد ہونا
چاہیےاور اس میں ایک زبان ہو کر یورپ سےمطالبہ کیا جانا چاہیےکہ وہ اپنی گستاخانہ
حرکتیں بند کرےاور پرامن بقائےباہمی کےاصولوں پر عمل کری۔ اقوام متحدہ کی سطح پر
جوکوششیں شروع ہوئی ہیں ‘ ان کو منطقی نتیجے سےہمکنار کیا جائی۔ اسی طرح مسلم دنیا
کےعوام کو مطمئن کیا جاسکتا ہےکہ ان کےرہنما نہ تو کسی مصلحت کا شکار ہیں ‘ نہ خواب
خرگوش میں مست ہیں ‘ نہ وہ کسی کےدم چھلےبنےہوئےہیں۔
|