|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
صلیبی جنگوں کا نیا سلسلہ شروع
یولانہ پوسٹن (Jyllands-Posten) ڈنمارک کا مشہور اخبار ہی۔ اس اخبار کا ایڈیٹر پڑھےلکھےطبقےمیں بہت مشہور ہی۔ ڈنمارک کےبےشمار لکھاری مصنف اور صحافی اس کےذاتی حلقےمیں شامل ہیں۔ ایڈیٹر کےلکھاری دوست نےپچھلےسال ستمبر میں نبی اکرمکی حیات پر ایک گستاخانہ کتاب لکھی تھی۔ وہ اس کتاب میں (نعوذباللہ) نبی اکرم کےخاکےشامل کرنا چاہتا تھا لیکن جب اس نےخاکےبنوانےکیلئےآرٹسٹوں سےرابطےکیےتو تمام
آرٹسٹوں نےخاکےبنانےسےانکار کر دیا۔ ان
آرٹسٹوں کا کہنا تھا: مسلمان اسےتوہین رسالت سمجھتےہیں اور اگر انہوں نےکوئی ایسی حرکت کی تو ان کی زندگی خطرےکا شکار ہو جائےگی۔ وہ لوگ ہالینڈ کی مثال دیتےتھےجہاں ایک گستاخ فلم ساز نےایک برہنہ عورت کےجسم پر
آیت لکھ دی تھی بعدازاں ایک مسلمان نوجوان نےاس فلم ساز کو قتل کر دیا۔ قتل کےبعد جب مقدمہ چلا تو اس نوجوان نےعدالت سےدرخواست کی ”مہربانی کر کےمجھےپھانسی کی سزا دےدی جائےکیونکہ اگرمیں زندہ رہا اور کسی دوسرےشخص نےمیرےسامنےگستاخی کی تو میں اسےبھی قتل کر دوں گا۔‘ ان
آرٹسٹوں کا کہنا تھا: اس قاتل نوجوان کا یہ بیان مسلمانوں کی ذہنیت او رطرزفکر کو ظاہر کرتا ہی۔ یہ لوگ اپنےمذہب‘ نبی اکرم کی مقدس ومطہر شخصیت اور صحابہ کرام کی ذات پر کسی قسم کا کمپرومائز (سمجھوتہ) نہیں کرتےچنانچہ ہم لوگ اپنی جان کا رسک (خطرہ) لینےکیلئےتیار نہیں ہیں۔
جب یہ مصنف ہر طرف سےناکام ہو گیا تو وہ یولاند پوسٹن (Jyllands Posten) کےایڈیٹر کےپاس
آ گیا اور اس نےاس سےشکایت کی: ”ہمارےملک کےتمام
آرٹسٹ بزدل ہیں‘ یہ لوگ مسلمانوں کےپیغمبرکا خاکہ تیار کرنےپر تیار نہیں ہیں۔“ ایڈیٹر نےمصنف سےاس کی وجہ پوچھی تو اس نے”بزدلی“ کی ساری وجوہ بتا دیں۔ ایڈیٹر نےاس کےجواب میں کہا: ”آرٹسٹ بلاوجہ پریشان ہیں‘ ڈنمارک ایک لبرل اور سیکولرملک ہےاور اس میں
آباد تمام مسلمان بھی ڈنمارک کےلوگوں کی طرح ہیں۔ یہ لوگ ڈنمارک کےلوگوں کےکلچر میں رنگےہوئےہیں۔ یہ ہماری زبان بولتےہیں‘ ہمارےجیسےکپڑےپہنتےہیں‘ ہمارےجیسےکھانےکھاتےہیں اور ان میں بھی وہ تمام بری عادتیں موجود ہیں جو ہمارےلوگوں میں ہیں‘ لہٰذا ڈنمارک کےمسلمان اس پر کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کریں گی۔“ مصنف نےاس کےجواب میں کہا: ”مسلمان ذرا مختلف قسم کی قوم ہیں۔ یورپ اور امریکہ کا عیسائی
آپس میں تقسیم ہی۔ وہ ناروےکا عیسائی‘ ڈنمارک کا عیسائی اور برطانیہ کا عیسائی ہےچنانچہ ہم سب کےمسائل مقامی اور اپنےاپنےملک تک محدود ہوتےہیں۔ مسلمان بھی
آپس میں تقسیم ہیں لیکن بعض ایسی باتیں‘ بعض ایسےمسائل ہیں جن پر ان لوگوں کی سوچ ایک ہوتی ہی‘جن پر ان کا ردعمل یکساں ہوتا ہی۔ یہ لوگ ان باتوں پر نیل کےساحل سےلےکر کاشغر تک ایک ہی قسم کا ردعمل ظاہر کرتےہیں۔“ مصنف کےجواب پر ایڈیٹر کو بڑی حیرت ہوئی لہٰذا اس نےٹیسٹ کرنےکا فیصلہ کیا۔ اس نےاخبار کےکارٹونسٹ کو بلایا‘ اسےآئیڈیا دیا اور کارٹونسٹ نےگستاخی کا عمل شروع کر دیا۔ اس بدبخت نےنبی اکرم کے(نعوذ باللہ) بارہ خاکےبنائےاور یہ خاکےایڈیٹر کےحوالےکر دیئےگئی۔ ایڈیٹر نے30 ستمبر 2005ءکو اخبار میں یہ خاکےشائع کر دیئی۔
یہ خاکےچھپنےکی دیر تھی کہ ڈنمارک کےمسلمانوں کےتن بدن میں آگ لگ گئی۔ وہ تمام
نوجوان جن کےبارےمیں ایڈیٹر کا خیال تھا یہ لوگ مغربی ثقافت میں پوری طرح رچ بس
گئےہیں۔ ان کےاندر کا مسلمان فوت ہو گیا ہےاو ریہ لوگ اب کسی قسم کا ردعمل ظاہر
نہیں کریں گی‘ وہ نوجوان شعلہ جوالہ بن گئےاور ان نوجوانوں نےکوپن ہیگن کےتمام
اسٹالوں سےاخبارات اٹھائےاور ان تمام اخبارات کو چوک میں رکھ کر آگ لگا دی۔ اس
کےبعد وہ اخبار کی عمارت کی طرف بڑھی‘ اخبار کی انتظامیہ نےفوراً پولیس طلب کر لی‘
پولیس آئی اور اس نےعمارت کو گھیرےمیں لےلیا۔
|