|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
تہذیبوں کا تصادم ہےکیا؟
امریکہ کےسابق صدر بل کلنٹن سمیت مغرب کےرہنےوالےبعض اصحاب کا موقف ہےکہ اسلام کےساتھ مغرب کی کوئی مخالفت نہیں اگر ہےتو ان مسلمانوں کےساتھ جو انتہاپسند اور متشدد سوچ کےمالک ہیں ‘لیکن 1400 سالہ تاریخ ہمیں ایک مختلف کہانی سناتی ہی۔ اسلام اور مغرب کےباہمی تعلقات ماضی میں اکثر اوقت کشیدگی کا شکار ہی رہی۔
آج اسلامی دنیا پر کڑا وقت
آن پڑا ہی۔ افغانستان اور عراق امریکی فوج کےقبضےمیں ہیں۔ دونوں ملک نہ تو اقتدار اعلیٰ کےمالک رہ گئےہیں‘ نہ ہی انہیں
آزاد کہا جا سکتا ہےاور اب امریکی بندوقیں ایران کو گھور رہی ہیں۔ اسلام اور مغرب کےدرمیان موجودہ فاصلوں کی ماضی میں کوئی نظیر دستیاب نہیں۔
آج یورپ والٹیئر اور اسلام کےدرمیان پھنسا ہوا ہی۔ مذہب کی تضحیک مغربی ثقافت کا جزولاینفک بن چکی ہی۔ مردم بیزاری او رطنز بھی اسی کلچر کا حصہ ہیں۔
آزادی اظہار مغربی جمہوریت کی بنیاد کا پتھر ہےاس کےبرعکس مسلمان نہ تو مذہب کا مذاق اڑانےکےعادی ہیں‘ نہ ہی حضرت محمد مصطفی سمیت وہ پیغمبروں میں سےکسی کا مضحکہ اڑاتےہیں۔ یہی وجہ ہےکہ مغرب مسلمانوں کےاس ردعمل کی شدت کا ادراک کرنےسےقاصر ہی‘ جو انہوں نےحضور کےتوہین
آمیز خاکوں کی اشاعت پر دکھایا۔
غیرمسلموں کےنزدیک ممکن ہےحضرت محمد کی حیثیت عام سی ہو‘ لیکن مسلمانوں کےنزدیک وہ حددرجہ روحانی اہمیت کےحامل ہیں۔ خاکوں کی ا شاعت اور گہرےتنازع کی شکل اختیار کر گئی ہی۔ مغرب کی بےحسی اور حماقت پر مسلمان غم وغصہ کی تصویر بنےبیٹھےہیں۔
نہ تو یہ کوئی قانونی معاملہ ہی‘ نہ ہی ہم اسےحقوق کا مسئلہ کہہ سکتےہیں۔ کیا میں صرف اس بناءپر لوگوں کی توہین کرنا شروع کر دوں کہ میں ایسا کرنےکیلئےآزاد ہوں؟ گزشتہ 1400 سال سےمسلمان اس سخت اصول پر قائم ہیں کہ رسول کریم کی خیالی شبیہ بنانا ممنوع ہی۔ پاکستان کےقانون کےمطابق پیغمبراسلام کےمقدس نام کو بگاڑنا بہت عبرتناک ہےجس قول یا فعل سےاس یگانہ روزگار ہستی کی اہانت کا پہلو نکلتا ہو‘ اس پر طویل قید یا موت کی سزا سنائی جا سکتی ہی۔ یہی وجہ ہےکہ پیغمبر اسلام کی توہین ڈنمارک میں کی گئی اور غصےکی
آگ ہمارےہاں بھڑک اٹھی۔ مذہب اسلام پر تنقید مختلف چیز ہی‘ پیغمبر اسلام کی تضحیک مذہبی اور نسلی تعصب کا نتیجہ ہےجو صد فی صد ناقابل قبول ہی۔
کارٹون جذبات کےاظہار کا طاقتور ذریعہ ہیں‘ ان میں بنفسہ کوئی خرابی نہیں پائی جاتی۔ کراہت انگیز فعل یہ ہےکہ ان کےتوسط سےنبی اکرم کی توہین کا اہتمام کیا گیا اور دنیابھر کےاربوں مسلمانوں کےجذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ کیا مسلمانوں کی توہین کر کےآزادی اظہار کےحق کو
آزمانا کمینگی اور گھٹیاپن نہیں۔ دراصل مسلمانوں کو مخاطب کر کےکہا گیا ہےکہ ”جو چیز تمہارےمذہب میں حرام ہی‘ دیکھو ہم اسےکس طرح حلال بناتےہیں‘ تم دیکھتےہی رہ جائو گی‘ مگر کر کچھ نہیں سکو گی۔“
حال ہی میں کیرن آر مسٹر انگ نےکہاہے”آزادی اظہار رائےبلاشبہ ایک مثالی چیز ہی‘
لیکن یہ حق ایک بہت بڑا فرض اور ذمہ داری بھی عائد کرتا ہی۔ ہم ایک تاریک دور میں
رہ رہےہیں جو تعصب یورپ میں 1930ءکی دہائی میں پروان چڑھا‘ اس کی گہری جھلک ہم آج
بھی دیکھ سکتےہیں۔“ اقوام متحدہ کےسیکرٹری جنرل کوفی عنان کےالفاظ میں: ”آزادی
اظہار کا حق قطعی اور لامحدود نہیں ہوتایہ احساس ذمہ داری اور دانش مندی کا متقاضی
ہی۔
|