|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
کیا تہذیبوں کا تصادم ناگزیر ہی؟
لگ بھگ نصف صدی کی بات ہےکہ تیسری دنیا کےبہت سےدوسرےممالک کی طرح ترکی کےعلاوہ تمام عالم اسلام مغربی استعمار کےنوآبادیاتی قبضےمیں تھا۔ ہمیں یہ بات بہ خوبی سمجھ لینی چاہیےکہ استعمار سےجنگ کل بھی عقائد کی نہیں بلکہ وسائل پر قبضےکی تھی او رآج کےنیم نوآبادیاتی دور میں بھی ساری کشمکش وسائل پر براہ راست یا بالواسطہ قبضےکی ہی۔ مغربی استعمار نوآبادیاتی دور میں بھی مقامی اشرافیہ کو اپنا مطیع بنا کر ان ہی کےذریعےاپنےقبضےکو طول اور استحکام دیتا
آیا ہی‘ ”آزادی“ کےبعد بھی وہ اپنےہی حاشیہ برداروں‘ بادشاہوں‘ فوجی
آمروں کےذریعےمقامی وسائل کا استحصال کر رہا ہی۔ بہرحال ایک فرق دونوں صورتوں میں یہ واقع ہوا ہےکہ پہلےہم استعمار کےصرف غلام تھی‘
آقائوں کی مضبوطی کا سارا دارومدار غلاموں کی محنت پر ہوتا ہی‘ غلام اپنی
آزادی کیلئےجدوجہد بھی کرتےہیں اور
آقائوں کیلئےمسئلہ بنےرہتےہیں‘ اب ہمارا اور مغربی استعمار کا تعلق مولیٰ اور موالی کا ہی۔ ہم موالی اقوام استعمار کےدر پر پڑی رہتی ہیں‘ اس کی دی ہوئی بھیک اور ان کی خوشنودی پر ہمارا گزارہ ہوتا ہی‘ کسی بھی حکمران کی ”کامیابی“ کا معیار مغربی استعمار سےملنےوالی بھیک کی مقدر اور ان کی خوشنودی بن چکا ہی۔ وہ اگر نگاہیں پھیر لیں تو پھر ہمارا پوچھنےوالا کوئی نہیں ہی۔ ہمارا جیسا کچھ بھی نظام ہےوہ مزید درہم برہم ہو جاتا ہی۔ اس مولا اور موالی کےباہمی تعلق کو گلوبالائزیشن سےمزید تقویت مل رہی ہےجس میں ہمارےمارکیٹ اور وسائل باضابطہ طور پر مغربی استعمار کےقبضےمیں جا رہےہیں اور ہمارا انحصار ان کی بھیک اور خوشنودی پر روزبروز بڑھ رہا ہی۔
مغربی استعمار نےتیسری دنیا کو ”آزادی“ دیتےوقت ایک کام یہ کیاکہ وہ جاتےجاتےہر علاقےمیں سرحدوں اور اثاثوں کےبہت سےحل طلب مسائل چھوڑ گیا جو اب تک علاقائی تصادم کی وجہ اور بنیاد بنےہوئےہیں۔ اس کےنتیجےمیں اگر ایک طرف ان کےبنائےہوئےہتھیاروں کی سپلائی جاری رہی ہےاور ہمارےقومی وسائل جنگ کےمیدانوں میں برابر ہوتےرہےہیں تو دوسری جانب بیشتر ملکوں کی اندرونی سیاست میں مسلح افواج کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہی۔ تیسری دنیا کےبہت سےملکوں میں مسلح افواج اور مغربی استعمار کا گٹھ جوڑ اور اس گٹھ جوڑ کےاطراف مقامی مفاد پرستوں کا اجتماع اسی علاقائی تصادم کی صورتحال کا نتیجہ ہی۔ تصادم کےباعث جنگی اخراجات میں اضافی بھی ہوئےجو بیرونی قرضوں سےپورےکیےگئی۔ رفتہ رفتہ ایک ایسی منزل
آئی جہاں قرضوں کی ادائیگی پر ہونےوالےاخراجات دفاعی اخراجات سےبھی زیادہ ہو گئی۔ ایک بار پھر استعمار کی منت سماجت کرنی پڑی کہ قرضوں کو معاف کیا جائےیا ان کی ادائیگی موخر کی جائی۔ استعمار کی گرفت ملک‘ معیشت اور
آزادی پر مزید سخت ہو گئی۔
”آزادی“ کےبعد کسی قسم کی روک ٹوک نہ ہونےاور اپنےضابطےاور قوانین خود ہی بنانےاور خود ہی توڑنےکےاختیار کےباعث حکمران طبقہ بالکل بےلگام ہو گیا۔ اب ان کا کام عوام کی کسی قسم کی خدمت کرنا نہیں بلکہ ان کو لوٹنا او رظلم کرنا تھا۔ حکومتوں کےادارےرفتہ رفتہ سماجی شعبےکی تمام تر ذمےداریوں‘ تعلیم‘ صحت حتیٰ کہ جرائم کی روک تھام اور امن عامہ کی ذمےداریوں سےبھی دستبردار ہوتےگئی۔ اس طرح ’بری اور عوام دشمن حکمرانی‘ کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جس سےباصلاحیت افرادی قوت کی ملک میں تیاری اور کھپ‘ قومی پیداوار میں فروغ‘ لوگوں کےمعیار‘ زندگی میں بہتری جیسےاہم ترین قومی معاملات پس پشت پڑتےچلےگئی۔
یہ تمام باتیں اپنی جگہ لیکن قدرتی وسائل اور افرادی قوت سےبھرپور اسلامی دنیا
آگےکی جانب بڑھ رہی ہی۔
|