|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
دنیا کو تہذیبی تصادم سےبچایا جائی؟
بعض یورپی اخبارات میں پیغمبراسلام کےبارےمیں توہین
آمیز اور گستاخانہ خاکوں کی اشاعت نےدنیا کو انتہائی ہیجانی اور اشتعال انگیز صورتحال سےدوچار کر دیا ہی۔ اضطراب اور بےچینی کی ایسی فضا پیدا ہو گئی ہےجس کا خاتمہ ہوتا قریب قریب نظر نہیں
آتا‘ اگر اس کشیدہ صورتحال کو اسی طرح بےقابو رہنےدیا گیا تو پرامن بقائےباہمی کا تصور خطرےمیں پڑ جائےگا اور اگر اس سےپیدا ہونےوالےبگاڑ کا مداوا نہ کیا گیا تو اس امر کا امکان ہےکہ نہ صرف تہذیبیں
آپس میںمتصادم ہوں گی‘ بلکہ یہ تصادم مذاہب اورمعاشروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لےلےگا۔ اس مضمون کا مقصد معاملےکو صحیح تناظر میں رکھتےہوئےحقیقت پسندانہ اور قابل عمل اقدام تجویز کرنا ہےجس سےسلجھائو کی کوئی صورت نکل سکی۔
فی الوقت ملوث اخبارات
آزادی اظہا رکےحق کو اس قبیح اشاعت کا جواز بنا رہےہیں۔ اس کےدفاع میں وکالت کرنےوالےآزادی تقریر کی تقدیس پر زور دےرہےہیں جس کا علم بلند رکھنا ان کےنزدیک ضروری ہےچاہےاس کےنتائج کچھ بھی ہوں‘ تاہم فی الحقیقت معاملہ
آزادی اظہار کا نہیں کیونکہ یہ کوئی مطلق حق نہیں‘ نہ ہی کوئی ایسا دعویٰ کر سکتا ہی۔ حقوق اپنی نوعیت کےاعتبار سےباہم معکوس ہوتےہیں اور ان کی تنقید کا دارومدار باہمی طور پر دیگر بنیادی حقوق پر ہوتا ہی۔ اس بات پر اصرار کرنا غلطی ہو گا کہ کوئی حق مطلق ہوتا ہےاس لیےکہ اس حق کی زد دوسروں کےبنیادی حقوق پر پڑ سکتی ہی۔ مہذب اور جمہوری دنیا کا حصہ ہونےکےدعویدار ہر ملک نےاظہار کی
آزادی پر اپنےمعاشرےکےمفاد میں کچھ حدود اور پابندیاں عائد کر رکھی ہیں تاکہ ایک خاص سطح کےانسانی طرزعمل کو برقرار رکھاجا سکی۔ ایسی پابندیاں بعض اوقات مقامی رسم ورواج اور معاشرتی روایات پر مبنی ہوتی ہیں تو بعض اوقات ثقافتی اقدار اورمذہبی تعلیمات ان کی بنیاد بنتی ہیں۔ اس کی روح یہ ہےکہ وہ اپنےاخلاقی‘ تہذیبی‘ سماجی اور معاشرتی اقدار اور وقا رکےتحفظ کےداعی بنیں لہٰذا اس شوروغوغا کا بلند کرنا کہ مسلمانوں کےاحتجاج اور مظاہروں سےآزادی تقریر وتحریر پامال ہو رہی ہی۔ حقیقت کو جھٹلانےکےمترادف ہی۔ مثال کےطور پر بچوں میں ہیجان پیدا کرنےوالی
آزادانہ فحش نگاری یا مذہبی ونسل پرستانہ نفرت کی تشہیر کرنےپر بجاطور پر بہت سےممالک میں پابندی لگی ہوئی ہی۔ بہت سےیورپی ملکوں میں عالمی جنگ کی تباہی سےانکار ایک جرم تصور کیا جاتا ہی۔
آسٹریا‘ بلجیم‘ چیک ریپبلک‘ فرانس‘ جرمنی‘ اسرائیل‘ ایتھوپیا‘ پولینڈ‘ رومانیہ‘ سلواکیہ اور سوئٹزرلینڈ میں یہ ایک فوجداری جرم ہےجس کی سزا جرمانوں اور قید کی صورت میں دی جاتی ہی۔ ایک برطانوی اخبار 27 جنوری 2003ءنےاسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون کا کارٹون شائع کیا جس میں دکھایا گیا کہ وہ ایک فلسطینی بچےکا سر کھا رہا ہےاور کہہ رہا ہےکہ ”اس میں کیا برائی ہی! تم نےاس سےپہلےکسی سیاستدان کو نومولود بچوں کو کبھی چومتےہوئےنہیں دیکھا“ اس کارٹون نےاسرائیل سمیت دنیابھر کی یہودی
آبادیوں میں ایک طوفان برپا کر دیا۔ خاکہ حقیقت کےچاہےکتنا ہی قریب ہو یہ ردعمل اس قوم کا اپنےلیڈر کیلئےایک فطری بات تھی۔ سگریٹ نوشی کی طرف راغب کرنےوالےفلمی کرداروں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ حال ہی میں اٹلی کےوزیراعظم نےجب یہ بیان دیا کہ وہ رومی سیاست کےیسوع مسیح ہیں تو کلیسائےروم اور اطالوی سیاستدانوں نےاس پر گہرےغم وغصےکا اظہار کیا۔ کلیسائےروم کےاعلیٰ عہدیدار نےکہا کہ ہمیں معلوم ہےکہ وہ کہیں گےکہ انہوں نےیہ جملہ ازراہ تفنن کہا لیکن اس طرح کےجملےمذاق میں بھی نہیں کہنےچاہئیں یہاں بھی معاملہ
آزادی اظہار پر پابندی کا نہیں بلکہ تہذیبوں کی مقدس ہستیوں اور علامات کی گستاخی اور بےادبی کےعنصر کی حوصلہ شکنی کرنا ہی۔ (Daily Telegraph 13-2-06 www.telegraph.o.uk)
دنیا کےکم وبیش تمام ممالک میں ہرجانہ کےدیوانی قانون کےتحت ہتک عزت کا قانون
نافذ ہےجس کےتحت کسی فرد کو کسی کی حق تلفی یا شہرت کےنقصان پر ہرجانہ ادا کرنےکی
سزا دی جا سکتی ہی۔
|