|
طلاق طلاق طلاق
۔قرآن کر یم میں طلاق و ما بعد کی تمام تر تفصیل بڑی و ضا حت سے مو جود ہے۔فر ما یا و ان خفتم شقاق بینھما فا بعثوا حکمًا من اھلہٖ و حکمًا من اھلھا ان یرید اصلاحًا یوفق اﷲ بینھما ط ان اﷲ کان علیمًا خبیرًا(۳۵/۴)اگر تمہیں خد شہ ہو کہ میاں بیوی کے در میان ان بن ہے۔تو ایسی حا لت میں تم ایک حا کم عورت کی طرف سے لو ایک مرد کی طرف سے، اگر وہ اصلاح چا ہیں گے تو اﷲ ان میں موا فقت کریں گے کچھ شک نہیں کہ اﷲ کو ہر چیز کا علم ہے اور وہ ہر چیز سے با خبر ہے۔لیکن اگر حکما فیصلہ نہ کر سکے تو لا محا لہ با ت طلاق تک پہنچے گی۔بعد از طلاق عدت ھنوہ عدت شمار کر یں جو کہ ثلاثہ قروئٍ (۲۲۷/۲) تین حیض ہے۔اس کے بعد فر ما یا رب نے کہ۔ ۔ ۔ و بعو لتھن احق برد ھن فی ذٰلک ان ارا دو آ ا صلاحًا ۔ ۔ ۔ (۲۲۸/۲)اور ان کے خا وند اگر پھر موا فقت چا ہیں تو وہ ان کو زو جیت میں لینے کے زیا دہ حقدا ر ہیں۔الطلاق مر تٰن طلاق تو دو مر تبہ ہی دی جا سکتی ہے ۔اسکے بعد فا مساک بمعرو فٍ پھر عورت کو بطر یق شا ئستہ پکڑ کر گھر بٹھا دو یا۔ او تسریح با حسان(۲۲۹/۲) احسان کے سا تھ رخصت کر دو۔ اب اگر اﷲ نے طلاق کے بعد رجوع کی اجا زت دی ہے،اور یہ بھی فر ما یا کہ اگر میاں بیوی دو با رہ گھر بسا نا چا ہیں تو اس کا شوہر زیا دہ حقدا ر ہے اسے بیوی بنا نے کا۔اور یہ کہ بعد از طلاق چا ہو تو عدت گزر جا نے کے بعد بھی بیوی کو عزت کے سا تھ گھر بٹھا لو یا احسان کے سا تھ رخصت کر دواتنی بڑی رعا یت سے ثا بت ہوا کہ رب کی منشاء کیا ہے۔ یعنی واپسی کے چا نسس۔ اب جو لوگ بہ یک نشست تین یا کم و بیش طلا قوں کو حر ف آ خر سمجھتے ہیں اور اس کے بعد وا پسی کا در وا زہ بند کر تے ہیں۔تو یہ اﷲ کی منشا کے خلاف با ت ہوئی۔اور او پر کی رعا عتوں والی آ یات کو رد کر نے کے مترا دف ہے۔ اور جو لوگ اﷲ کے حکم کے خلاف اپنا حکم منوا تے ہیںان کا مقا م کیا ہے؟ وہ کس صف میں اپنے لئے جگہ بنا رہے ہیں یہ بھی معروف ہے ۔ بلا شبہ رب نے فر ما یا ہے کہ زندگی میں دو بار طلاق دی جا سکتی ہے۔لیکن اگر تیسری بار بھی طلاق دی گئی توفلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زو جًا غیر ہ ط فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یترا جعآ ان ظنآ ان یقیما حدود اﷲ(۲۳۰/۲)پھر وہ حلال نہ رہی حتیٰ کوئی اور اس سے نکاح کر لے پھر وہاں سے بھی طلاق ہو جا ئے تو پھر ان پر کو ئی گناہ نہیں اگر وہ زن و شو ہر بنیں اور حدود اﷲ کو قا ئم رکھیں۔لیکن ایسا کسی منصو بہ کے تحت نہ ہو۔مثلاً ایک محلہ میں یہ اصول ہو کہ کہ کسی غیر شا دی شدہ کو کرا یہ پر مکان نہیں دینا ہے۔اور کوئی شخص بازا ر سے کرا ئے کی کوئی عورت لا کر مکان حا صل کر لے پھر اس عو رت کو رخصت کر دے اور محلے وا لوں سے کہے کہ میری بیوی میکے گئی ہے۔یہ دھو کہ ہے۔اسی طرح کسی دو سرے شخص سے منصو بے کے تحت نکاح اور پھر طلاق ہوتویہ دھو کہ ہو گااور اﷲ کے سا تھ دھو کا کر نے وا لا مسلمان نہیںرہتا۔وہ جل جلا لہ یعلم ما فی صدور دلوں کے بھید جا نتا ہے۔ حلا لہ کے متعلق فر مان رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ و سلم ہے۔کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ قال لعن رسول اللہ صلے اﷲعلیہ و سلم علی محلل و المحلل لہ۔(۸/۳۱۵۰۔ مشکوٰۃ) فر ما یاعبد اﷲ بن مسعود ؓ نے کہ بھیجی ہے لعنت رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ و سلم نے حلا لہ کر نے وا لے اور جس کے لئے کی جا ئے اُن پر۔اب اگر حلا لہ منشاء الٰہی ہو تا توکیا رسول اللہ رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ و سلم حلا لہ کر نے وا لوں پرلعنت بھیج سکتے تھے؟وہؐ تو رحمت کی دعا کر تے
|