|
ہر وقت نشے
میں ڈینگیں مارتا رہتا ہے ابھی کل ہی اپنے ایک ساتھی سے کہہ رہاتھا کہ میں اب اتنا
دولت مند ہوگیا ہوں مجھے نوکری کی بھی پرواہ نہیں اس نے نوٹوں کی کئی گڈیاں بھی
دکھائی تھیں۔“
” اس کی یہ حالت کب سے ہے؟“
” میرا خیال ہے کہ راج روپ نگر کے دورانِ قیام ہی میں اس کی حالت میں تبدیلی واقع
ہونی شروع ہوگئی تھی۔“
” راج روپ نگر“ حمید نے چونک کر کہا۔ لیکن فریدی نے اس کے پیر پر اپنا پیر رکھ دیا۔
” کیا راج روپ نگر میں بھی آ پ کی کمپنی نے کھیل دکھائے تھے۔“
” جی نہیں وہاں کہاں وہ تو ایک قصبہ ہے © © © © © ©ہم لوگ وہاں ٹھہر کر اپنے دوسرے
قافلے کا انتظار کر رہے تھے۔“
”راج روپ نگر وہی تو نہیں جہاں وجاہت مرزا کی جاگیر ہے۔“
” جی ہاں جی ہاں وہی۔“
” کیا یہ نیپالی پڑھا لکھا آدمی ہے۔“
”جی ہاں میٹرک پاس ہے۔“
” میں اس سے بھی کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں۔“
” ضرور ضرور ۔ میرے ساتھ چلیے لیکن ذرا ہمارا بھی خیال رکھئے گا میں نہیں چاہتا کہ
کمپنی کا نام بدنام ہو۔“
” آپ مطمئن رہئے۔“
وہ تینوں خیموں کی قطاروں سے گزرتے ہوئے ایک خیمے کے سامنے رک گئے۔” اندر چلئے “
منیجر بولا۔
” نہیں صرف آپ جائےے آ پ اس سے ہمارے بارے میں کہئے گااگر وہ ملنا پسند کرے گا تو
ہم لوگ ملیں گے ورنہ نہیں“ فرید ی نے کہا۔
منیجر پہلے تو کچھ دیر تک حیرت سے اسے دیکھتا رہا پھر اندر چلا گیا فریدی نے اپنی
آنکھیں خیمے کی جالی سے لگا دیں نیپالی ابھی تک کھیل ہی کے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔وہ
بہت پریشان نظر آرہاتھا۔منیجر کے داخل ہوتے ہی وہ اچھل کر کھڑا ہوگیا لیکن پھر اس
کے چہرے پر قدرے اطمینان کے آثار نظر آنے لگے۔
” اوہ آپ آپ ہی ہیں میں سمجھا جی کچھ نہیں مجھے سخت شرمندگی ہے۔“ وہ رک رک کر بولا۔
” تو کیا تم کسی اور کا نتظار کر رہے تھے۔“منیجر نے پوچھا۔
” جج جی “ و ہ ہکلانے لگا۔” نن نہیں بب با لکل نہیں۔“
باہر فریدی نے گہرا سانس لیا اور اس کی آنکھوں میں عجیب قسم کی وحشیانہ چمک پیدا
ہوگئی۔
” میں معافی چاہتا ہوں مجھے افسوس ہے۔“ نیپالی خود کو سنبھال کر بولا۔
” میں اس وقت اس معاملہ پر گفتگو کرنے نہیں آیا ہوں ۔“ منیجر بولا۔”بات دراصل یہ ہے
کہ ایک صاحب تم سے ملنا چاہتے ہیں۔“
نیپالی بری طرح کانپنے لگا۔
” مجھ سے مل ملنا چاہتے ہیں ۔“وہ بد حواس ہو کر بیٹھتے ہوئے ہکلایا۔” مگر میں نہیں
چاہتا وہ مجھ سے کیوں ملناچاہتے ہیں ۔“
” میں یہی بتانے کے لئے ملناچاہتا ہوں کہ میں کیوں ملنا چاہتا ہوں۔“فریدی نے خیمے
میں داخل ہو کر کہا۔ اس کے پیچھے حمید بھی تھا۔
” میں آپ کو نہیں جانتا۔“ اس نے خود کو سنبھال کر کہا۔” میر اخیال ہے کہ اس سے پہلے
میں آپ سے نہیں ملا۔“
|