|
” میں خفیہ پولیس کا انسپکٹر “فریدی نے جلدی سے کہا۔
” خفیہ پولیس “ وہ اس طرح بولا جیسے کوئی خواب میں بڑبڑاتا ہے۔” لیکن کیوں آخر آپ
مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔“
” میں تمہیں پریشان نہیں کر نا چاہتا لیکن اگر تم میرے سوالات کا صحیح صحیح جواب دو
گے تو پھر تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں کیا تم کل رات نشاط نگر ڈاکٹر شوکت کی کوٹھی پر
گئے تھے۔“فریدی نے یہ جملہ نہایت سادگی اور اطمینان سے اداکیا لیکن اس کا اثر کسی
بم دھماکے سے کم نہ تھانیپالی بے اختیار اچھل پڑا ۔ فریدی کواب پورا یقین ہو گیا۔
” نہیں نہیں “ وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں چیخا۔”تم سفید جھوٹ بو ل رہے ہو میں وہاں
کیوں جاتا نہیں یہ جھوٹ ہے پکا جھوٹ“
”اس سے کوئی فائدہ نہیں مسڑ“ فریدی بولا ۔”میں جانتا ہوں کہ کل رات تم ڈاکٹر شوکت
کو قتل کرنے گئے اور اسکے دھوکے میںسیتا دیوی کو قتل کر آئے اگر تم سچ بتادوگے تو
میں تمہیں بچانے کی کوشش کروں گا کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ تمہیں کسی دوسرے نے قتل
پر آمادہ کیا تھا۔“
” آپ مجھے بچانے کی کوشش کریں گے۔“ وہ بے بسی سے بولا ۔” اوہ میرے خدا میں نے
بھیانک غلطی کی۔“
” شاباش ہاں آگے کہو۔“ فریدی نرم لہجے میں بولا۔سرکس کا منیجر انہیں حیرت اور خوف
کی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
نیپالی انسپکٹر فریدی کے اس اچانک حملے سے پہلے ہی سرا سیمہ ہوگیا تھا اس نے ایک بے
بس بچے کی طرح کہنا شروع کیا” آپ نے کہا کہ میں تمہیں بچا لوں گا اس نے مجھے د س
ہزار روپے پیشگی دئےے تھے اور قتل کے بعد دس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا تھا اف میں
نے کیا کیا اس کانام ہاں اس کا نام ہے ارررہا اُف “وہ چیخ کر آگے کی طرف جھک گیا
” وہ دیکھو“ سارجنٹ حمید چیخا۔
کسی نے خیمے کے پیچھے سے نیپالی پر حملہ کیا تھا خنجر خیمے کی کپڑے کی دیوار پھاڑتا
ہو ااس کی پیٹھ میںگھس گیا تھا۔وہ بکس پر بیٹھے بیٹھے دو تین بار تڑپا پھر خنجر کی
گرفت سے آزاد ہو کر فرش پر آرہا۔
” حمید باہر باہر دیکھوجانے نہ پائے “انسپکٹر فریدی غصہ میں چلایا۔
چیخ کی آواز سن کر کچھ اور لوگ بی آ گئے سب نے مل کر قاتل کو تلاش کرنا شروع کیا
لیکن بے سود منیجر کو گھبراہٹ کی وجہ سے غش آگیا۔
کوتوالی اطلاع پہنچائی گئی تھوڑی دیر بعد کئی کانسٹیبل اور دو سب انسپکٹر مو قع
واردات پر پہنچ گئےانسپکٹر فریدی کو وہاں دیکھ کر انہیں سخت حیرت ہوئی۔ فریدی نے
انہیں مختصر اً سارا حال بتایا مقتول کے اقرار جرم کا گواہ منیجر تھا لہٰذا منیجر
کا بیان ہو رہا تھا کہ انسپکٹر فریدی اور سارجنٹ حمید وہاں سے روانہ ہوگئے۔
ان کی کار تیزی سے نشاط نگر کی طرف جارہی تھی۔
” کیوں بھئی رہا نہ وہی چھ پیسے والے جاسوسی ناول والا معا ملہ “ فریدی نے ہنس کر
کہا۔
” اب تو مجھے بھی دلچسپی ہوچلی ہے۔“حمید نے کہا ” لیکن یہ تو بتا ئےے کہ آپ کو یقین
کیو نکر ہوا تھا کہ وہی قاتل ہے۔“
” یقین کہاں محض شبہ تھا لیکن منیجر سے گفتگو کرنے کے بعد کچھ کچھ یقین ہو چلا تھا
کہ سازش میں کسی دوسرے کا ہاتھ ضرور تھامیں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ قتل کے سلسلے میں
اپنی غلطی کااحساس ہو جانے کے بعد ہی سے اس کی حالت غیر ہو گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ
کھیل کے وقت اس کا ہاتھ بہک رہا تھا اب اسے شاید اس شخص کا انتظار تھا۔ جس نے اسے
قتل کے لئے آمادہ کیا تھا“
|