|
اس کے پس انداز ہونے کا خیال اسی
لئے پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ایک خرچےلا آدمی تھا ان روپوں کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہ
مل سکی جس سے اسکے قاتل کی شخصیت کاپتہ لگ سکتا بہر حال سیتا دیوی کے قاتل کا سہرا
تو آپ ہی کے سر ہے لیکن اب اس کے قاتل کا پتہ لگانا بہت ضروری ہے۔اور یہ کام سوائے
آپ کے اور کوئی نہیں کرسکتا میں نے کل رات ہی یہ دونوں کیس محکمہ سراغرسانی کے سپرد
کر دئےے ہیں۔اب بقیہ ہدایات آپ کو چیف انسپکٹر سے ملیں گی۔“
” اور میں تمہیں اس کیس کا انچارج بناتا ہوں ۔“چیف انسپکٹر صاحب نے کہا ” اس کے
کاغذات تمہیں دس بجے تک مل جائیں گے۔“
” یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ میں کیس کی تفتیش شروع ہی سے کر رہاہوں اور میں نے اس
سلسلے میں اپنا طریقہ کار بھی مکمل کر لیا ہے لیکن آپ سے استدعا ہے کہ آپ یہی ظاہر
ہونے دیں کی میں چھٹی پر ہوں اور یہ معاملہ ابھی تک محکمہ سراغرسانی تک نہیں
پہنچا۔“
” تو اس کیس میں بھی تم اپنی پرانی عادت کے مطابق اکیلے ہی کام کروگے۔“چیف انسپکٹر
صاحب نے کہا۔ ” یہ عادت خطرناک ہے۔“
” مجھے افسوس ہے کہ بعض وجوہ کی بناءپر جنہیں میں ابھی ظاہر نہیں کرنا چاہتا مجھے
یہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔ اچھا اب اجازت چاہتا ہوں ۔“
انسپکٹر فریدی کے گھر پر سار جنٹ حمید اس کا ا نتظار کر رہاتھا۔ اس کی آنکھوں سے
معلوم ہو رہا تھا۔ جیسے وہ رات بھر نہ سوےا ہو۔ فریدی کے گھر پہنچتے ہی وہ بے تابی
سے اس کی طرف بڑھا۔
” کہو خیریت تو ہے۔“فریدی نے کہا تم مجھے پریشان سے معلوم ہوتے ہو۔“
” کچھ کیا ۔میں بہت پریشان ہوں ۔“ حمید نے کہا۔
” آخر بات کیا ہے۔“
” کل رات تقریباً ایک بجے میں آپ کے گھر سے روانہ ہوا تھوڑی دور چلنے کے بعد میں نے
محسوس کیا کہ میراکوئی پیچھا کر رہا ہے ۔ پہلے توخیال ہوا کہ یہ کوئی راہ گیر ہوگا
لیکن جب میں نے اپنا شبہ رفع کرنے کے لئے یو ں ہی بے مطلب پیچ در پیچ گلیوں میں
گھسنا شروع کیا تو میرا شبہ یقین کی حد تک پہنچ گیا۔کیو نکہ وہ اب بھی میر اپیچھا
کر رہا تھا۔ خیر میں نے گھر پہنچ کر تالا کھولا اور کواڑ بند کرکے درز سے جھانکتا
رہا۔ میرا تعاقب کرنے والا اب میرے مکان کے سامنے کھڑا دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا۔
پھر وہ آگے بڑھ گیا میں دبے پاﺅں باہر نکلا اور اب میں اس کا پیچھا کر رہا تھا۔
اس قسم کا تعاقب کم سے کم میرے لئے نیا تجربہ تھا کیونکہ تعاقب کرتے کرتے پانچ بج
گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ یوں ہی بلا مقصد آوارہ گردی کر تا پھر رہا ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ میں اس کا چہرہ نہیںدیکھ سکا ۔ کیونکہ ا سنے اپنے چسٹر کا کالر
کھڑا کررکھا تھا اور اس کی نائٹ کیپ اس کے چہرے پر جھکی ہوئی تھی ۔ تقریباً پانچ
بجے وہ باٹم روڈ اور بیلی روڈ کے چوراہے پر رک گیا وہاں ایک کار کھڑی تھی۔ و ہ اس
میں بیٹھ گیا اور کار تیزی سے شمال کی جانب روانہ ہوگئی وہاں اس وقت مجھے کوئی
سواری نہ مل سکی ۔ لہٰذا تین میل سے پیدل چل کر آرہا ہوں۔ شاید رات سے اب تک میں نے
پندرہ میل کا چکر لگایا ہوگا۔“
”تمہاری نئی دریافت تو بہت دلچسپ رہی ۔“ فریدی کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
وہ تھوڑی دیر تک چُپ رہا اس کی آنکھیں اس طرح دھندلا گئیں جیسے اسے نیند آرہی ہو۔
پھر اچانک ان میں ایک طرح کی وحشیانہ چمک پیدا ہوگئی اور اس نے ایک زور دار قہقہہ
لگایا
” کیا کہا تم نے “ فریدی بولا۔ ” وہ باٹم روڈ کے چوراہے سے شمال کی جانب چلا گیا۔“
” جی ہاں ۔“
|