|
کوئی شخص سر سے پیر تک مخمل کے لحاف اوڑھے لیٹا
تھا۔ اور ایک خوبصورت لڑکی سرہانے بیٹھی تھی۔
” میںسامنے والے کمرے کے بہت سے راز جانتا ہوں لیکن تمہیں کیوں بتاﺅں “ بوڑھا فرید
ی کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔ ”بس کرو آﺅ اب چلیں۔“
”مجھے کسی کے راز جاننے کی ضرورت ہی کیاہے۔“ فریدی اپنے شانے اچھالتا ہو بولا بوڑھا
قہقہہ لگا کر بولا۔” کیامجھے احمق سمجھتے ہو۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ جملہ تم
نے محض اسی لئے کہا ہے کہ وہ سارے راز اگل دوں تم خطرناک آدمی معلوم ہوتے ہو اچھا
اب چلو میں تمہیں باہر جانے کا راستہ دکھادوں۔“
وہ دونو ں نیچے اتر آئے۔ ابھی وہ ہال ہی میں تھے کہ دروازے پر کنور سلیم کی صورت
دکھائی دی۔
” آپ یہاں کیسے ؟“ اس نے فریدی سے پوچھا۔ ” کیا آپ پروفیسر کو جانتے ہیں۔“
” جی نہیں “ لیکن آج انہیں اس طرح جان گیا ہوں کہ زندگی بھر نہ بھلا سکوں گا۔“
” کیا مطلب “
” آپ گلہریوں کاشکار کرتے کرتے آدمی کا شکار کرنے لگے تھے۔“ فریدی پروفیسر کے ہاتھ
میں دبی ہوئی رائفل کی طرف اشارہ کرکے بولا۔ ” میری فلیٹ ہیٹ ملاحظہ فرمائےے۔“
” اوہ سمجھا“ کنور سلیم تیز لہجے میں بولا۔” پروفیسر تم براہ کرم ہماری کوٹھی خالی
کردو، ورنہ میں تمہیں پاگل خانے بھجوادوں گا۔سمجھے۔“
بوڑھے نے خوفزدہ نگاہوں سے کنور سلیم کی طرف دیکھا اور بےساختہ بھاگ کر مینار کے
زینوں پر چڑھتا چلاگیا۔
” معاف کیجئے گا یہ بوڑھا پاگل ہے۔ خواہ مخواہ ہماری پریشانی بڑھ جائیں گی اچھا خدا
حافظ۔“
فریدی نے اپنی کار کا رخ قصبے کی طرف پھیر دیا۔ اب وہ نواب صاحب کے فیملی ڈاکٹر سے
ملنا چاہتا تھا ۔ ڈاکٹر توصیف ایک معمر آدمی تھا۔ اس سے قبل وہ سول سرجن تھا پنشن
لینے کے بعد اس نے اپنے آبائی مکان میں رہنا شروع کر دیا تھا جو راج روپ نگر میں
واقع تھا۔ اس کا شمار قصبہ کے ذی عزت اور دولت مند لوگوں میںہوتا تھا۔ فریدی کو اس
کی جائے رہائش معلوم کرنے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔
ڈاکٹر توصیف انسپکٹر فریدی کو شاید پہچانتا تھا اس لےے و ہ اس کی غیر متوقع آمد سے
کچھ گھبرا سا گیا۔
” مجھے فریدی کہتے ہیں۔“ اس نے اپنا ملاقاتی کارڈ پیش کرتے ہوئے کہا۔
” میںآپ کو جانتا ہوں۔“ ڈاکٹر توصیف نے مضطربانہ انداز مین ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا۔ ”
فرمائےے کیسے تکلیف فرمائی۔“
” ڈاکٹر صاحب میں ایک نہایت اہم معاملے میں آپ سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔“
” فرمائےے © © اچھا اندر تشریف لے چلئے۔“
” آپ ہی نواب صاحب کے فیملی ڈاکٹر ہیں۔“ فریدی نے سگار لائٹر سے سلگاتے ہوئے کہا۔
” جی ہاںجی فرمائےے۔“ ڈاکٹر نے مضطربانہ لہجے میں کہا۔
” کیا کرنل تیواری آپ کے مشورے سے نواب صاحب کا علاج کر رہے ہیں۔“وہ اچانک ہی پوچھ
بیٹھا۔
ڈاکٹر توصیف چونک کر اسے گھورنے لگا۔
” لیکن آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں۔“
” ڈاکٹر صاحب ! ذہنی بیماریوں کے علاج میں مجھے بھی تھوڑا سا دخل ہے۔ اور میں اچھی
طرح جانتا ہوں کہ اس قسم کے مرض کا علاج صرف ایک ہے اور وہ ہے آپریشن آخر کرنل
تیواری کو جسے کئی نوجوان ڈاکٹرذہنی امراض کے سلسلے میں کافی پیچھے چھوڑچکے ہیں
معالج کیوں مقرر کیا گیا۔“
|