|
کسی کو یہ جواب دیتا کہ وہ
اپنی اسکیموں میں کسی سے نہ تو مشورہ لیتے تھے اور نہ مل کر کام کرتے تھے۔
تقریباً دس بجے رات کو ایک اچھی حیثیت کا نیپالی چوروں کی طرح چھپتا چھپاتا سارجنٹ
حمید کے گھر سے نکلا بڑی دیر تک یوںہی بے مصرف سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہا پھر
ایک گھٹیا سے شراب خانے میں گھس گیا۔ جب وہ وہاں سے نکلا تو اس کے پیر بری طرح
ڈگمگا رہے تھے آنکھوں سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کثرت سے پی گیا ہو۔ وہ لڑکھڑا تا
ہوا ٹیکسیوں کے اڈے کی طرف چل پڑا۔
”ول بائی شاپ ہم دور جانا مانگتا ہے۔“ ا س نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے کہا۔
” صاحب ہمیں فرصت نہیں ۔“ ٹیکسی ڈرائیور نے کہا۔
” او بابا پیشہ دے گا“ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کرپرس نکالتے ہوئے کہا۔
” نہیں نہیں صاحب مجھے فرصت نہیں ۔“ ٹیکسی ڈرائیور نے دوسری طرف منہ پھیرتے ہوئے
کہا۔
”ارے لو ہمارا باپ ۔ تم بی شالا کیا یاد کرے گا۔“ اس نے دس دس کے تین نوٹ اسکے ہاتھ
پر رکھتے ہوئے کہا۔”اب چلے گا ہمارا باپ۔“
” بیٹھئے کہاں چلنا ہوگا ۔“ ٹیکسی ڈرائیور نے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
” جاﺅ ہم نہیں جانا مانگتا ہم تم کو تیس روپیہ خیرات دیا۔“ اس نے روٹھ کر زمین پر
بیٹھتے ہوئے کہا۔
” ارے نہیں صاحب اٹھئے چلئے جہاں آپ کہیں آ پ کو پہنچا دوں چاہے جہنم ہی کیوں نہ
ہوں۔“ٹیکسی ڈرائیور نے اس کے نشے کی حالت سے لطف اٹھاتے ہوئے ہنس کر کہا۔
” جہنم لے چلے گا۔“ نیپالی نے اٹھ کر پُر مسرت لہجے میں کہا۔ ” تم بڑا اچھا ہے تم
ہمارا باپ ہے تم ہمارا بھائی ہے تم ہمارا ماں ہے تم ہمارا بی بی ہےتم ہمارا بی بی
کاشالا ہے تم ہمارا تم ہمارا تم ہمارا کیا ہے۔“
” صاحب ہم تمہارا سب کچھ ہے بو لو کہاں چلے گا۔“ ٹیکسی ڈرائیور نے اس کا ہاتھ اپنی
گردن سے ہٹاکر ہنستے ہوئے کہا۔
” جدھر ہم بتلانا مانگتا تم جانا مانگتا شالا تم نہیں جانتا کہ ہم بڑا لوگ ہے ہم تم
کو بخشش دے گا “ مد ہوش نیپالی نے پچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔” شیدھا چلو“
دوسرے موڑ پر پہنچ کر ٹیکسی راج روپ نگر کی طرف جا رہی تھی۔
ڈاکٹر شوکت انسپکٹر فریدی کی موت کی خبر سن کر ششدررہ گیا۔ اسے حیرت تھی کہ آخر یک
بیک یہ کیا ہو گیا لیکن وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس کی موت سیتا دیوی کے قتل کی
تفتیش کے سلسلے میں واقع ہوئی ہے۔ و ہ یہی سمجھ رہا تھا کہ فریدی کے کسی پرانے دشمن
نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا ہوگا۔ محکمہ سراغرسانی والوں کے لئے دشمنوں کی اچھی
خاصی تعداد پیدا کر لینا کوئی تعجب کی بات نہیں اس پیشے کے کامیاب ترین آدمیوں کی
موتیں عموماًاسی طرح واقع ہوتی ہیں ۔
سیتا دیوی کے قتل کے متعلق اس کی اب تک یہی رائے تھی کہ یہ کام ان کے کسی ہم مذہب
کا تھا جس نے مذہبی جذبات سے اندھا ہوکر آخر کار انہیں قتل کر ہی دیا انسپکٹر فریدی
کایہ خیال کہ وہ حملہ دراصل اسی پر تھا۔ رفتہ رفتہ اس کے ذہن سے مٹتا جا رہا تھا
یہی وجہ تھی کہ جب اسے راج روپ نگر سے ڈاکٹر توصیف کا خط ملا تو اس نے اس قصبے کے
نام پردھیان تک نہ دیا۔
دوسرے دن ڈاکٹر توصیف خود اس سے ملنے کے لئے آیا ۔ اس نے نواب صاحب کے مرض کی ساری
تفصیلات بتا کر اسے آپریشن کرنے پر آمادہ کر لیا۔
ڈاکٹر شوکت کی کارراج روپ نگر کی طرف جا رہی تھی ۔ وہ اپنے اسسٹنٹ اور دو نرسوں کو
ہدایت کر آیا تھا کہ وہ چار بجے تک آپریشن کا ضروری سامان لے کر راج روپ نگر پہنچ
جائےں۔“
|